یہ اس تناظر کا پہلے حصے کا اردو ترجمہ ہے 'The working class, the fight against capitalist barbarism, and the building of the World Party of Socialist Revolution (Part One)' جو 3 جنوری 2024 کو انگریزی میں شائع ہوا۔
1. نیا سال 2024 بڑھتے ہوئے عالمی بحران کے حالات کے ساتھ ہی شروع ہوتا ہے۔ صدی کے آغاز میں جو پرفریب وعدوں کے ساتھ پیشین گوئیاں کی گی تھیں کہ عالمی سرمایہ داری ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے خیرخواہ اور 'یک قطبی' حکمرانی کے تحت عالمگیر امن اور خوشحالی کے ایک نئے دور میں داخل ہو رہی ہے۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے ساتھ ہی ’’چھوٹی بیسویں صدی‘‘ کے عفریت جو سب سے بڑھ کر مارکسزم اور سوشلسٹ انقلاب کے بھوت اور تماشے ہمیشہ کے لیے دفن ہو چکے تھے۔ وال اسٹریٹ نے دنیا کو پکارا: 'میرا نام سرمایہ داری ہے میں بادشاہوں کا بادشاہ ہوں میرے کاموں کو دیکھو اؤ طاقتور اور مایوس! لیکن اس متکبرانہ فخر اور شیخی کو ایک زبردست تباہی میں تحلیل کرنے میں چوتھائی صدی سے بھی کم وقت لگا ہے۔ فاتح سرمایہ داری کی نئی صدی سب سے مختصر ثابت ہوئی ہے۔ بیسویں صدی کی جنگوں اور انقلابات کو جنم دینے والے عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے بنیادی تضادات ابھی تک حل نہیں ہو سکے ہیں اور پوری دنیا میں پھیلنے والے معاشی، سماجی اور سیاسی اتھل پتھل کی محرک بنے ہوئے ہیں۔
2. پچھلی صدی کی تباہیوں سے پیدا ہونے والی ہولناکیوں کو دوبارہ سے ظاہر کیا جا رہا ہے۔ نسل کشی کو کھلے عام ریاستی پالیسی کے آلہ کار کے طور پر اپنایا جا رہا ہے۔ اسرائیلی حکومت کی طرف سے غزہ میں فلسطینی عوام کو ختم کرنے کی کوشش امریکہ اور اس کے سامراجی اتحادیوں کی کھلی توثیق کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے جنہوں نے بارہا جنگ بندی کی مخالفت کا اعلان کیا ہے۔ ایک گنجان آباد شہری علاقے کو بے رحمانہ بمباری کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جس میں جنگ کے پہلے 10 ہفتوں میں 25,000 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔
3. اسرائیل کے فاشسٹ وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے اپنے نئے سال کے پیغام میں اعلان کیا کہ یہ حملہ 2024 تک جاری رہے گا۔ اسرائیل جنگ کو مزید ایک ہفتہ بھی جاری نہیں رکھ سکتا کجاَ ایک سال وہ امریکی سامراج کی لامحدود مالی اور فوجی مدد کے اور اس کے نیٹو کے شریک مجرم کے بغیر اس جنگ کو طول نہیں دے سکتا۔ امریکی صدر، سکریٹری آف اسٹیٹ، لاتعداد دیگر اعلیٰ سرکاری اہلکار اور پینٹاگون کے اعلیٰ اہلکار واشنگٹن اور تل ابیب کے درمیان آتے جاتے ہیں اور اسرائیلی کارروائیوں کی نگرانی کرتے ہیں اور بمباری کے اہداف کے انتخاب میں حصہ لیتے ہیں۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ امریکی اور نیٹو اہلکار غزہ کے اندر زمین پر قاتلانہ کارروائیوں میں براہ راست ملوث ہیں۔
4. نسل کشی کی منظوری اور اس میں سامراجی طاقتوں کی طرف سے شرکت انسانی حقوق کے لیے کی جانے والی معمول کی خلاف ورزیوں سے کہیں زیادہ نمائندگی کرتی ہے۔ غزہ کی نسل کشی ایک اعلیٰ سطح پر اس رجحان کی تصدیق کرتی ہے جسے سب سے پہلے لینن نے پہلی عالمی جنگ کے دوران ایک صدی سے زیادہ عرصہ قبل واضع کیا تھا۔ اس نے 1916 میں لکھا تھا کہ 'جمہوری-ریپبلکن اور رجعتی-بادشاہت پرست سامراجی بورژوازی کے درمیان فرق مٹ گیا ہے کیونکہ وہ دونوں زندہ سڑ رہے ہیں.' آگر 'رجعت پسند بادشاہت پسند' کی اصطلاح کو 'فاشسٹ' کے لیے بدل دیں تو لینن کا تجزیہ موجودہ دور کی سامراجی حکومتوں کی تفصیل پر مکمل طور پر درست ثابت ہوتا ہے۔
5. غزہ کی نسل کشی کوئی منفرد واقعہ نہیں ہے جسے اسرائیل-فلسطین تنازعہ اور صہیونی منصوبے کے موروثی طور پر رجعتی کردار اور اس کے نسل پرست اور غیر متعصب قوم پرست نظریے سے متعلق غیر معمولی حالات کی پیداوار کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ مؤخر الذکر عناصر یقیناً اسرائیلی حکومت کے اقدامات میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن موجودہ جنگ کی بے لگام درندگی جو اس کے سامراجی تنخواہ داروں اور ہتھیار فراہم کرنے والوں کی مکمل حمایت سے کی گئی ہے اسے عالمی سامراجی اور قومی ریاستی نظام کے ٹوٹنے کے تناظر میں ہی درست طور پر پرکھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔
6. سوویت یونین کی تحلیل کے بعد امریکی سامراج کے حکمت عملی سازوں کی بنیادی 'غلطی' یہ تھی کہ اس واقعے کی وضاحت خالصتاً نظریاتی اصطلاحات میں کی گئی تھی اُسے سوشلسٹ 'آمریت' پر سرمایہ دارانہ 'آزاد کاروبار' کی فتح کے طور پر پیش کیا گیا۔ ' لیکن سوشلزم کے ساتھ سٹالنزم کی غلط شناخت پر مبنی اس وضاحت نے سوویت یونین کے ٹوٹنے کی اصل وجہ اور امریکی اور عالمی سامراج کی مستقبل کی بڑھوتی پر اس کے اثرات کو چھپا دیا۔
7. اس کے المناک نتائج کے باوجود یو ایس ایس آر کی تحلیل نے 'ایک ملک میں سوشلزم' کی سٹالنسٹ پالیسی پر ضروری مارکسسٹ-ٹراٹسکی تنقید کی تصدیق کی ہے۔ ایک الگ تھلگ سوشلسٹ ریاست رجعتی قوم پرست یوٹوپیا کا شکار ہو گی جیسا کہ ٹراٹسکی نے عالمی معیشت کی حقیقت کی بنیاد پر اسکی پیش گوئی کی تھی۔
8. یو ایس ایس آر کے خاتمے نے ریاست ہائے متحدہ کو اپنے حریفوں پر ایک قلیل مدتی فائدہ فراہم کیا جسے اس کے پروپیگنڈا کرنے والوں نے 'یک قطبی لمحہ' کا نام دیا۔ لیکن بیسویں صدی کی دو عالمی جنگوں کا باعث بننے والا بنیادی تضاد یعنی ایک انتہائی مربوط عالمی معیشت کی معروضی حقیقت اور فرسودہ قومی ریاستی نظام کی استقامت کے درمیان تصادم سوویت یونین اور اسکی مشرقی یورپ میں سیٹلائٹ حکومتوں
کے خاتمے سے حل نہیں ہو سکا تھا۔
9. امریکہ نے عالمی تسلط کی سطح حاصل کرنے کے لیے اپنے جغرافیائی سیاسی فائدے کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جو اس وجہ سے حاصل نہیں کر سکا کیونکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد نازی جرمنی کی شکست میں سوویت یونین کے فیصلہ کن کردار اور دوسری عالمی جنگ کے بعد نوآبادیات مخالف ماس تحریکوں کی لہر تھی کا نتیجہ تھا۔ واشنگٹن نے اپنے آپ کو باور کرایا کہ وہ آخر کار اپنی فوجی طاقت کے ذریعے عالمی معیشت کو اپنے کنٹرول میں رکھ سکتا ہے۔ امریکی سامراج کے پسندیدہ پنڈت نیو یارک ٹائمز کے تھامس فریڈمین نے 1999 میں اعلان کیا تھا کہ 'وہ آہنی مٹھی جو دنیا کو سلیکون ویلی کی ٹیکنالوجیز کے لیے محفوظ رکھتی ہے اسے ریاستہائے متحدہ کی فوج، فضائیہ، بحریہ اور میرین کور کہتے ہیں...'[1]
10. ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی طرف سے شروع کی جانے والی جنگوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ بلقان، مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا میں اپنے مجموعی اقتصادی زوال کے باوجود اپنی غالب پوزیشن کو برقرار رکھنے کی ایک مایوس کن کوشش تھی۔ انٹرنیشنل کمیٹی نے عراق پر 2003 کے حملے کے محرکات کی وضاحت کی اور اس کے بنیادی تسلط کے منصوبے کی ناکامی کا اندازہ یوں لگایا:
عراق کے خلاف ایک جارحانہ جنگ کا آغاز سامراج کی بنیاد پر پیداواری قوتوں کے عالمی کردار اور قدیم قومی ریاستی نظام کے درمیان تضاد کے عالمی تاریخی مسئلے اور تضاد کو حل کرنے کی ایک حتمی اور آخری کوشش کی نمائندگی کرتا ہے۔ امریکہ خود کو ایک سپر نیشنل سٹیٹ کے طور پر قائم کرکے اور دنیا کی تقدیر کے حتمی ثالث کے طور پر کام کرتے ہوئے اس مسئلے پر قابو پانے کی تجویز پیش کرتا ہے۔ اور اپنا بڑا حصہ حاصل کر لینے کے بعد یہ فیصلہ کرتا ہے کہ دنیا کے وسائل کو کس طرح مختص کیا جائے گا ۔ لیکن عالمی سرمایہ داری کے بنیادی تضادات کا سامراجی حل جو کہ 1914 میں بالکل رجعت پسند تھا وقت کے ساتھ ساتھ اور بھی بتر ہو چکا ہے۔ درحقیقت بیسویں صدی کے دوران عالمی اقتصادی ترقی کا سراسر پیمانہ اس طرح کے سامراجی منصوبے کو پاگل پن کا عنصر دیتا ہے۔ کسی ایک قومی ریاست کی بالادستی قائم کرنے کی کوئی بھی کوشش بین الاقوامی اقتصادی انضمام کی غیر معمولی سطح سے مطابقت نہیں رکھتی۔ ایسے منصوبوں کے گہرے رجعتی کردار کا اظہار ان وحشیانہ طور طریقوں سے ہوتا ہے جو اس کی تکمیل کے لیے درکار ہوتے ہیں۔[2]
11. غزہ کی نسل کشی امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں کی بڑھتی ہوئی مایوسی اور پریشان کن کوششوں سے پیدا ہونے والے 'وحشیانہ طریقوں' کی عکاسی کرتی ہے جس میں چین اور ان کے مفادات کو پسپا کرنے والی قومی ریاستوں کی طرف سے ان کی بالادستی کو درپیش چیلنج کے مقابلہ میں اپنی غالب پوزیشن کو برقرار رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ وہ ریاستیں ہیں جو واشنگٹن کے 'قواعد پر مبنی' سامراجی حکم سے متصادم ہیں۔ فلسطینیوں کا قتل عام روس کے خلاف چھیڑی جانے والی خونریز امریکی نیٹو پراکسی جنگ کے درمیان ہو رہا ہے جس کی ہولناکی فروری 2022 میں شروع ہونے کے بعد سے لگ بھگ ڈیڑھ ملین یوکرائنی اور کم از کم 100,000 روسی جانیں ضائع ہو جانے کی قیمت چکا رہے ہیں۔
12. چونکہ غزہ میں جنگ نے سامراجی پالیسی کے ایک قابل قبول آلے کے طور پر نسل کشی کو معمول بنا لیا ہے روس کے خلاف امریکہ-نیٹو کی جنگ میں مسلسل اضافے کے ساتھ ساتھ اس تنازعے کے ایک در حقیقت امکان حتیٰ کہ اس امکان کو بھی تسلیم کیا گیا ہے جو ٹیکٹیکل اور سٹیٹجیک جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا باعث بن سکتا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ باقاعدگی سے اور روسی اثاثوں اور علاقے پر فوجی حملوں کی ہدایت جاری کرتی ہے جنہیں سرد جنگ کے دوران جوہری انتقامی کارروائی کے طور پر مسترد کر دیا جاتا۔ بار بار 'سرخ لکیروں' کو عبور کرتے ہوئے بائیڈن انتظامیہ اور اس کی اتحادی نیٹو حکومتوں نے زور دے کر کہا ہے کہ ان کی فوجی کارروائیوں کو جوہری جنگ کے خطرے سے روکا نہیں جائے گا۔
13. یوکرین کو خون میں ڈوبا کر امریکی نیٹو سامراج اب تک میدان جنگ میں فتح حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ 2023 کے وسط میں اس کا بہت بڑا 'موسم بہار کی جارحیت' کی مہم ایک شکست کے ساتھ ختم ہوئی۔ 2023 کے آخری دنوں میں یوکرین کی حکومت نے روسی سرزمین پر میزائل حملہ کرکے جنگ میں نمایاں اضافہ کیا جس سے بیلگوروڈ شہر میں کم از کم 22 افراد ہلاک ہوئے۔ روس نے یوکرین پر میزائل حملوں کی ایک نئی لہر کے ساتھ جواب دیا ہے جس کو بائیڈن انتظامیہ پراکسی جنگ کی لامحدود فنڈنگ جاری رکھنے کے اپنے مطالبات کو مزید دباو کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔
14. حتمی تجزیے میں یوکرین میں پراکسی جنگ کو اکسانے میں امریکہ-نیٹو کی قیادت دراصل چین کے خلاف امریکی جنگ کی تیاری کی ایک مہم طور پر ہے جو دنیا کے ہر حصے کو آپریشن کے ایک مخصوص دائرے میں تبدیل کر رہا ہے۔ تقریباً 20 سال قبل 2006 میں انڑرنیشنل کمیٹی نے امریکہ کی عالمی پالیسیوں سے متعلق سوالات کا ایک سلسلہ اٹھایا جن میں سے درج ذیل یہ تھے۔
کیا امریکہ اپنی بالادستی کی خواہشات سے پیچھے ہٹنے اور ریاستوں کے درمیان عالمی طاقت کی زیادہ مساویانہ تقسیم کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو جائے گا؟ کیا یہ سمجھوتہ اور مراعات کی بنیاد پر اقتصادی اور ممکنہ عسکری حریفوں کو چاہے وہ یورپ میں ہوں یا ایشیا میں یہ مراعات دینے کے لیے تیار ہوں گے؟ کیا امریکہ چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو خوش اسلوبی اور پرامن طریقے سے ایڈجسٹ کرے گا؟[3]
ان سوالوں کے جواب میں آئی سی ایف آئی نے جواب دیا کہ جو لوگ اثبات میں جواب دیں گے 'وہ تاریخ کے اسباق کے خلاف بھاری شرط لگا رہے ہیں۔'
15. آج ان سوالات کے جوابات قیاس آرائی کے نہیں ہیں۔ امریکہ اور چین کے درمیان جنگ کو ایک امکان کے طور پر نہیں بلکہ ایک ناگزیر طور پر دیکھا جاتا ہے۔ واشنگٹن کی خارجہ پالیسی اسٹیبلشمنٹ کے اندر اس اتفاق رائے کا خلاصہ خارجہ امور کے نئے جنوری-فروری 2024 کے شمارے میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں کیا گیا ہے۔ اس کا عنوان ہے، ’’دی بیگ وان: چین کے ساتھ طویل جنگ کی تیاری‘‘۔ اس کے مصنف اینڈریو جے کریپینویچ جونیئر ہیں جو ہڈسن انسٹی ٹیوٹ کے ایک سینئر فیلو ہیں جو ایک معروف سامراجی تھنک ٹینک ہے۔
16. مضمون میں فرض کیا گیا ہے کہ امریکہ اور چین جنگ میں جائیں گے۔ یہ ایک حقیقت ہے جس پر بحث کرنے میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ اصل سوالات اس بات سے متعلق ہیں کہ جنگ کس طرح اور کہاں سے شروع ہوگی آبنائے تائیوان، جزیرہ نما کوریا، چین-ہندوستان کی سرحد کے ساتھ، یا جنوبی ایشیا میں اور کیا جنگ ایٹمی ہو جائے گی۔ کریپینویچ اسے یوں بیان کرتا ہے:
ایک بار جنگ چھڑ جانے کے بعد چین اور امریکہ دونوں کو اپنے جوہری ہتھیاروں سے لاحق خطرات کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔ امن کے وقت کی طرح دونوں فریق تباہ کن اضافے سے بچنے میں مضبوط دلچسپی برقرار رکھیں گے۔ یوں بھی جنگ کی گرمی میں ایسے امکان کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ دونوں کو اس میٹھے مقام کی تلاش کے چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا جس میں وہ مکمل جنگ کے بغیر فائدہ حاصل کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کر سکتے ہیں۔ نتیجتاً دونوں عظیم طاقتوں کے رہنماؤں کو اعلیٰ درجے کی خود پر قابو پانے کی ضرورت ہوگی۔
جنگ کو محدود رکھنے کے لیے واشنگٹن اور بیجنگ دونوں کو ایک دوسرے کی سرخ لکیروں کو پہچاننے کی ضرورت ہوگی اور مخصوص کارروائیوں کو جنگ بڑھنے والے کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور جو جوابی کشیدگی کو متحرک کر سکتے ہیں۔[4]
17. جوہری تباہی سے بچنے کی امید کو ایک وجودی تنازعہ کے درمیان جس پر جنگجوؤں کی قسمت کا انحصار ہے بڑھنے کو محدود کرنے کی صلاحیت پر داؤ پر لگانا فریب سے کم نہیں ہے۔ بہرصورت روس کے خلاف امریکی نیٹو کی پراکسی جنگ نے پہلے ہی یہ ثابت کر دیا ہے کہ امریکی سامراج ایٹمی جوابی کارروائی کے خطرے سے باز نہیں آئے گا اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ہر ’’سرخ لکیر‘‘ کو عبور کرے گا۔
18. کریپینویچ تسلیم کرتے ہیں کہ ناگزیر امریکی چین جنگ حتیٰ کہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے بغیر بھی پوری انسانیت کے لیے تباہ کن نتائج مرتب کرے گی۔ وہ لکھتا ہے:
یہاں تک کہ اگر دونوں فریق ایٹمی تباہی سے بچ گئے اور یہاں تک کہ اگر ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور اس کے بڑے اتحادی شراکت داروں کے آبائی علاقے جزوی طور پر جنگ میں بچ جاتے ہیں تو تب بھی تباہی کا پیمانہ اور دائرہ ممکنہ طور پر اس سے کہیں زیادہ ہو جائے گا جس کا امریکی عوام اور اس کے اتحادیوں کو علم ہے۔ [5]
19. کریپینویچ کی طرف سے اخذ کردہ نتیجہ یہ نہیں ہے کہ فوجی تباہی کو ہر قیمت پر روکا جانا چاہیے لیکن یہ کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی زیرقیادت اتحاد کی 'قربانی کی آمادگی اور اس کی کامیابی کے لیے ساتھ ساتھ جنگی کوششوں کے لیے عوامی حمایت کو برقرار رکھنے کی صلاحیت بہت اہم ہو گی۔' [6]
20. ناگزیر جنگ کے اس خوفناک سامراجی منظر نامے کی امریکی اور بین الاقوامی محنت کش طبقے کو مخالفت کرنی چاہیے۔ شمالی امریکہ، یورپ، ایشیا اور آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے سامراجی مراکز میں مزدوروں کو اپنے طاقت کے دیوانے مالیاتی کارپوریٹ سامراجی حکمران طبقے کے عالمی جیو پولیٹیکل اور اقتصادی مفادات کے دفاع میں قطعی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ نہ ہی روس، چین اور دیگر بڑی سرمایہ دارانہ علاقائی طاقتوں- برازیل، ارجنٹائن، مصر، خلیجی ریاستوں، ترکی، نائیجیریا، جنوبی افریقہ، بھارت، انڈونیشیا کے محنت کشوں کو کثیر قطبی کے یوٹوپیائی نقطہ نظر کی بنیاد پر عالمی جغرافیائی سیاست کو دوبارہ ترتیب دینے کی کوششیں جو کہ ایک رجعت پسند اقدام ہے کو ترقی پسند کردار کا نام دے کر نہ ہی اپنے کو اس سے منسوب کرنا چاہیے۔۔
21. حقیقت یہ ہے کہ امریکی سامراج نے روس یوکرین جنگ کو اکسایا اور پیوٹن حکومت کی جانب سے یوکرین پر حملہ کرنے کا فیصلہ جو دراصل روسی اور بین الاقوامی محنت کش طبقے کے مفادات کے نقطہ نظر کے بالکل خلاف ہے۔ امریکی اور یورپی سامراج کی اشتعال انگیزیوں کے خلاف پیوٹن حکومت کے ردعمل کا تعین 'قومی دفاع' کے تجریدی طور پر بیان کردہ تحفظات سے نہیں بلکہ سوویت یونین کے ٹوٹنے اور نجکاری کے نتیجے میں اور اس کے قومی اثاثوں کی سراسر چوری سے ابھرنے والے طفیلی اولیگارک-سرمایہ دار حکمران طبقے کے طبقاتی مفادات سے کیا گیا تھا۔
22. یو ایس ایس آر کی تحلیل سے پہلے کے سالوں میں حکمران بیوروکریٹک ڈھانچے کے اندر سیاسی تنازعہ قومی اور نسلی خطوط پر تیار ہوا۔ اس رجعتی رجحان کو سٹالن کی طرف سے پرولتاریہ بین الاقوامیت کی تردید اور شاونسٹ سوویت حب الوطنی کی آڑ میں روسی قوم پرستی کے فروغ کے ذریعے تیار اور سہولت فراہم کی گئی تھی۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد قوم پرست نوکرشاہی گروہوں کے درمیان پہلے سے موجود تنازعات جن میں روسی اور یوکرائنی سب سے زیادہ طاقتور تھے- خام مال، منڈیوں اور نئی قومیتوں کے درمیان علاقائی فوائد کے لیے ایک کھلی جدوجہد میں تیزی سے تیار ہوئے۔ سرمایہ دار حکمران اشرافیہ اکتوبر 1991 میں سوویت یونین کی تحلیل سے تین ماہ قبل بین الاقوامی کمیٹی نے خبردار کیا تھا:
جمہوریہ میں قوم پرست اعلان کرتے ہیں کہ تمام مسائل کا حل نئی 'آزاد' ریاستوں کے قیام میں مضمر ہے۔ ہمیں یہ پوچھنے کی اجازت دیں کہ کس سے آزاد؟ ماسکو سے 'آزادی' کا اعلان کرتے ہوئے قوم پرست اپنی نئی ریاستوں کے مستقبل سے متعلق تمام اہم فیصلے جرمنی، برطانیہ، فرانس، جاپان اور امریکہ کے ہاتھ میں دینے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے۔[7]
23. حالیہ جاری جنگ جس کی وارننگ 30 سال قبل بین الاقوامی کمیٹی کی طرف سے دی گئی تھی کی توثیق ہے۔ امریکہ-نیٹو جنگ کے خلاف جدوجہد پیوٹن حکومت کی حکمت عملی کے مطابق نہیں بلکہ اس کے رجعتی قوم پرست-سرمایہ دارانہ ایجنڈے کی بے جا مخالفت میں ہونی چاہیے۔ روسی اور یوکرائنی محنت کشوں کی جنگ مخالف پالیسی نئی سرمایہ دار اشرافیہ کے خلاف سابق سوویت یونین کے محنت کش طبقے کے تمام طبقات کے اتحاد پر مبنی ہونی چاہیے۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران لینن اور بالشویکوں کی بین الاقوامی پالیسی جو اپنی قومی سرمایہ دارانہ ریاست کے دفاع کی غیر متزلزل مخالفت پر مبنی تھی کو موجودہ روس (پیوٹن حکومت کے خلاف) اور یوکرین (زیلنسکی حکومت کے خلاف) کے محنت کشوں کو اپنانا چاہیے۔)
24. سوشلسٹ بین الاقوامیت کے وہی بنیادی اصول امریکی سامراج اور چین کے درمیان تنازع کے بارے میں بین الاقوامی کمیٹی کے رویے کا تعین کرتے ہیں۔ امریکہ چین کی اقتصادی ترقی، اہم وسائل اور ٹیکنالوجیز تک اس کی رسائی کو محدود کرنے اور اس کے عالمی اثر و رسوخ کے پھیلاؤ کو روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ چین موجودہ جغرافیائی سیاسی اور اقتصادی اداروں کی تنظیم نو کے ذریعے امریکی سامراج کے مسلسل دباؤ کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتا ہے جس میں امریکی ڈالر عالمی تجارت اور مالیاتی لین دین کے ستون کے طور پر کام کرتا ہے۔ لیکن یہ پالیسی چین کی کوششوں کے باوجود کہ وہ اسے ترقی پسند اور بے لوث کے طور پر پیش کرے (مثال کے طور پر 'بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو' کے فروغ کے ذریعے) سرمایہ دارانہ بنیادوں پر سامنے آتی ہے اور اس کا مقصد موجودہ عالمی طاقت کے توازن کی تنظیم نو کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔
25. سرمایہ دارانہ ریاستوں کے ایک نئے کثیر قطبی اتحاد کو امریکی سامراج کی بالادستی کا مقابلہ کرکے جنگ کے آغاز کو نہیں روکا جا سکتا۔ سامراجی جنگ کے خلاف جدوجہد قومی ریاست کے نظام کی تشکیل نو کے ذریعے نہیں کی جا سکتی بلکہ اسکے برعکس صرف اس کی تباہی کی بنیاد پر کی جا سکتی ہے۔ جیسا کہ روزا لکسمبرگ نے پہلی عالمی جنگ کے موقع پر اصرار کیا کہ محنت کش طبقے کو 'یہ نتیجہ اخذ کرنا چاہیے کہ سامراجی جنگ، ملکوں کو لوٹنا اور قانون شکنی جو مسلسل لوگوں سروں پر منڈلا رہی ہے اور عالمی نسل کشی کے خلاف اور اس تشدد کی پالیسی کا مقابلہ صرف اور صرف سماجی انقلاب برپا کر کے سرمایہ داری سے لڑ کر ہی کیا جا سکتا ہے۔'[8]
[1]تھامس ایل فریڈمین 'اے مینی فیسٹو فار فاسٹ ورلڈ ' نیویارک ٹائمز میگزین 28 مارچ 1999
[2]جنگ کی ایک چوتھائی صدی: عالمی تسلط کے لیے یو ایس کی مہم 1990-2016 ڈیوڈ نارتھ کی جانب سے (مہرنگ کتب: اوک پارک، ایم آئی)، صفحہ۔ 277
[3]ایضاً، صفحہ 368-69
[4]خارجہ امور جنوری-فروری 2024، صفحہ 111-12
[5]ایضاً صفحہ۔ 117
[6]ایضاً صفحہ۔ 118
[7]'آفٹر دی اگست پوٹش: سوویت یونین کراس روڈ پر' ڈیوڈ نارتھ، دی فورتھ انٹرنیشنل، جلد 19 نمبر 1 موسم سرما 1992 صفحہ 110.
[8]“پیٹی بورژوا یا پرولتاریہ کی عالمی پالیسی؟“ سامراج کی دریافت میں: پہلی عالمی جنگ سے سوشل ڈیموکریسی ، رچرڈ بی ڈے اور ڈینیئل گیڈو (شکاگو: حیمارکیٹ، کتابیں 2112) کے ذریعہ ترجمہ اور ترمیم شدہ، صفحہ۔ 470