اُردُو
Perspective

ڈیموکریٹک پارٹی میں بحران اور خانہ جنگی کے حالات میں انتخابات

یہ 7 جولائی 2024 کو انگریزی میں شائع ہونے والے اس 'The Democratic Party crisis and the civil war election' تناظر کا اردو ترجمہ ہے۔

صدر جو بائیڈن اتوار 7 جولائی 2024 کو فلاڈیلفیا میں ایک مہم کے دفتر میں خطاب کر رہے ہیں۔ [AP Photo/Manuel Balce Ceneta]

صدر جو بائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان 27 جون کو ہونے والی بحث کے بعد اور امریکی صدارتی انتخابات سے صرف چار ماہ قبل سیاسی اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا کے اندر بائیڈن کو ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار کی حیثیت سے دستبردار ہونے اور شاید عہدے سے استعفیٰ دینے کے مطالبات بڑھ رہے ہیں۔

اتوار کو ڈیموکریٹک ہاؤس مینارٹی لیڈر حکیم جیفریز نے اعلی اراکین کے ایک اجلاس کی میزبانی کی اور یہ اطلاع دی کہ جیری نڈلر (نیویارک – جوڈیشری کمیٹی)، مارک ٹاکانو (کیلیفورنیا – ویٹرنز افیئرز کمیٹی)، ڈان بیئر (ورجینیا – ایڈمنسٹریشن کمیٹی) اور ایڈم اسمتھ (واشنگٹن آرمڈ سروسز کمیٹی) ان نمائندوں نے بائیڈن سے دستبرداری کا مطالبہ کیا۔ 

'میٹ دی پریس' پر بات کرتے ہوئے کیلیفورنیا کے ڈیموکریٹک نمائندے ایڈم شِف نے جائزہ لیا کہ جمعہ کو اے بی سی کے جارج اسٹیفانوپولس کے ساتھ بائیڈن کے انٹرویو نے 'تشویش کو ختم نہیں کیا۔' ورجینیا کے سینیٹر مارک وارنر سینیٹرز کے ایک گروپ کو جمع کر رہے ہیں جس کا مقصد بائیڈن کو انتخابات کی دوڑ سے باہر کرنا ہے۔ ہاؤس انٹیلی جنس کمیٹی کے سابق سربراہ شیف اور سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے موجودہ چیئرمین وارنر کا کردار ان مباحثوں میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کی قریبی شمولیت کو واضح کرتا ہے۔

بائیڈن صدارتی دوڑ سے دستبردار ہوں یا نہ اُس نے ایک ایسے امکان پیدا کر دیا ہے اور جو بڑھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے وہ یہ کہ حکمران طبقے کے ایک بڑے حصے نے واضح طور پر ان پر اعتماد کھو دیا ہے۔

بحث میں بائیڈن کی کارکردگی نے اس طرح کی سرگرمی کو تیز کردیا ہے مگر مزید بنیادی مسائل داؤ پر لگے ہوئے ہیں۔ درحقیقت یہ حقیقت کہ بائیڈن کی علمی زہنی صلاحیت نمایاں طور پر خراب ہے جسکا ادراک بہت پہلے سے کیا جا چکا تھا۔ تاہم اسکی حالیہ بحث میں ناکامی سے جو چیز عیاں ہوئی اس کے لیے اب ناممکن ہو چکا ہے اس حقیقت کو وہ اب مسلسل عوام سے نہیں چھپا سکتے۔ 

ڈیموکریٹس کے ساتھ منسلک حکمران طبقے کے دھڑوں کے اندر موجود خدشات ہیں کہ بائیڈن ٹرمپ کے ساتھ مقابلے میں ہار جائیں گے یہ کئی عوامل سے محرک ہیں۔

سب سے پہلے یہ سمجھتے ہیں کہ اسکیامریکی خارجہ پالیسی پر مضمرات ہونگے۔ اس ہفتے نیٹو طاقتوں کے سربراہان مملکت واشنگٹن ڈی سی میں میٹنگ کر رہے ہیں تاکہ روس کے خلاف جنگ میں اضافے کے اگلے مرحلے کی منصوبہ بندی کی جا سکے جس میں نیٹو کے ہزاروں فوجیوں کی براہ راست تعیناتی کی تیاری بھی شامل ہے۔ 'سی آئی اے ڈیموکریٹس' کا بڑا دستہ جو کانگریس کے اندر فوج اور انٹیلی جنس ڈھانچے کے براہ راست ایجنٹ کے طور پر کام کرتا ہے ٹرمپ پر بھروسہ نہیں کرتا اور انہیں خوف ہے کے اسکی غیر متوقع خارجہ پالیسی کے طرز عمل سے یوکرین میں امریکی سامراج کے دور جدید کے جنگی منصوبوں میں بشمول مشرق اور بعید میں بھی خلل پڑ سکتا ہے۔

ڈیموکریٹس کے امیدوار کی حیثیت سے اپنی پوزیشن کا دفاع کرتے ہوئے بائیڈن نے سٹیفانوپولوس کے ساتھ اپنے انٹریو میں اس مسئلے پر زور دیا ہے اور فخر کیا کہ 'میں وہ شخص ہوں جس نے نیٹو کو ایک ساتھ رکھا اور اسکا مستقبل بنایا۔ کسی نے نہیں سوچا تھا کہ میں اسے بڑھا سکتا ہوں۔ میں وہ شخص ہوں جس نے پیوٹن کو لگام دی۔ کسی نے نہیں سوچا تھا کہ ایسا ہو سکتا ہے۔ میں وہ ہوں جس نے آکس [فوجی اتحاد] کے ساتھ جنوبی بحرالکاہل کی پہل کی۔'

امریکی حکمران طبقے کے اندر ایک دوسری اور اس سے بھی زیادہ بنیادی تشویش یہ پائی جاتی ہے کہ امریکہ کے سماجی اور سیاسی استحکام کے لیے ٹرمپ کی فتح کے کیا مضمرات ہونگے۔

ٹرمپ بمقابلہ ریاستہائے متحدہ میں گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ کے فیصلے نے صدر کو 'سرکاری' ایکٹ کی آڑ میں کیے گئے کسی بھی جرم کے لیے استغاثہ سے استثنیٰ قرار دیا۔ یہ نہ صرف ٹرمپ کی 6 جنوری کی بغاوت کو جائز قرار دیتا ہے بلکہ یہ صدر کو قانون سے بالاتر رکھتا ہے اور چیف ایگزیکٹو اور 'کمانڈر ان چیف' کو ایک آمر میں تبدیل کرتا ہے۔ 

جیسا کہ اس کیس میں اختلاف کرنے والے ججوں نے خود یہ نوٹ کیا کہ یہ حکم صدارتی سرگرمیوں کے لیے استثنیٰ فراہم کرتا ہے جس میں سیاسی مخالفین کے قتل سے لے کر فوجی بغاوت تک شامل ہیں۔ یہ بے مثال فیصلہ ملک کے پورے ریاستی وفاقی ڈھانچے کو منظم کرنے والے آئینی انتظامات کی خرابی کی نوید دیتا ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے اپنے تجزیے میں ڈبلیو ایس ڈبلیو ایس نے اسے یکم جولائی 2024 کے ردِ انقلاب کے طور پر بیان کیا یہ نوٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ' وائٹ ہاؤس کے قبضہ گر اب ایک مستقل آمرانہ حکمرانی کے اختیارات حاصل کر رہا ہے جیسا کہ پچھلی صدی میں مسولینی اور ہٹلر میں مرکوز تھی جو فاشسٹ ریاستوں کے اختیار کے مترادف ہے۔

اس فیصلے نے مؤثر طریقے سے آئین اور امریکی انقلاب اور خانہ جنگی کے ذریعے پیش کردہ بنیادی جمہوری اصولوں کو یکسر ختم کر دیا اور ریاستہائے متحدہ میں موجود انتہائی غیر مستحکم سماجی اور سیاسی حالات کو مزید بڑھا دیا ہے۔ حکمران طبقے کے کچھ حصوں میں یہ خیال اور آگاہی پائی جاتی ہے کہ ان حالات میں ٹرمپ کا اقتدار میں آنے سے سماجی عدم اطمینان اور ناقابل واپسی سیاسی ریڈکلیزیشن کے عمل کو ہوا ملے گی۔

اگرچہ میڈیا نے اپنی کوریج سے اس فیصلے کا حوالہ دینا بڑی حد تک خارج کر دیا ہے مگر پرنسٹن یونیورسٹی کے مشہور مورخ شان ولینٹز نے نیویارک ریویو آف بکس میں لکھتے ہوئے اس فیصلہ کے دور رس اہمیت کو اجاگر کیا۔ ولینٹز لکھاتا ہے کہ:

اس نے امریکی حکومت کے ڈھانچے کو یکسر تبدیل کر دیا ہے جس سے میک امریکہ گریٹ آگین(ایم اے جی اے) کی آمریت کی راہ ہموار ہو گئی ہے جس طرح ٹینی کورٹ نے غلامی کے اقتدار کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ سب ٹرمپ بمقابلہ امریکہ ہمارے وقت کا ڈریڈ سکاٹ بناتا ہے۔

ڈریڈ سکاٹ 1857 کے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا حوالہ ہے جو چیف جسٹس راجر ٹینی نے دیا تھا جس نے 'غلاموں کو امریکی شہریت نہیں دی جس نے خانہ جنگی کو ناگزیر بنا دیا۔ اگرچہ ولینٹز واضح طور پر ایسا نہیں کہتے لیکن اس کے مضمرات واضح ہیں: امریکہ ایک نئی خانہ جنگی کے دہانے پر ہے۔

یہ صرف ٹرمپ کی خصوصیات یا سپریم کورٹ کی مخصوص ساخت کا سوال نہیں ہے جس نے گہرے رجعتی فیصلوں کا ایک سلسلہ نافذ کیا ہے جو بنیادی جمہوری اصولوں کو مجروح کرتے ہیں۔ یہ دہائیوں پر محیط اُس عمل کا انجام ہے جس میں پچھلی چوتھائی صدی میں تیزی آئی ہے۔

2000 کے انتخابات کی چوری کے وقت 'تاریخ سے سبق: 2000 کے انتخابات اور نیا 'ناقابل برداشت تنازعہ'' کے عنوان سے ایک لیکچر میں ڈبلیو ایس ڈبلیو ایس کے انٹرنیشنل ایڈیٹوریل بورڈ کے چیئرمین ڈیوڈ نارتھ نے نوٹ کیا کہ سپریم کورٹ نے بش کے حق میں انتخابات کا جو فیصلہ دیا ہے یہ ظاہر کرتا ہے کہ 'امریکی حکمران طبقہ روایتی بورژوا جمہوری اور آئینی اصولوں کو توڑنے کے لیے کس حد تک تیار ہے۔' نارتھ نے سوال کیا کہ:

کیا یہ انتخابی دھندلی اور ووٹرز کی حق رائے دہی کو دبانے کی منظوری دینے اور وائٹ ہاؤس میں ایسے امیدوار کو نصب کرنے کے لیے تیار ہے جس نے یہ عہدہ صریح غیر قانونی اور جمہوریت مخالف طریقوں سے حاصل کیا ہو؟

بورژوازی کا ایک بڑا حصہ اور شاید امریکی سپریم کورٹ کی اکثریت بھی ایسا کرنے کے لیے تیار ہے۔ ریاستہائے متحدہ میں بورژوا جمہوریت کی روایتی شکلوں کے لیے حکمران اشرافیہ کے اندر حمایت کا ڈرامائی طور پر خاتمہ ہوا ہے۔

نو دن بعد سپریم کورٹ کی اکثریت نے اپنا بدنام زمانہ بش بمقابلہ گور فیصلہ جاری کیا انتخابات چوری کرکے بش کو اقتدار سونپ دیا گیا جسے گور اور ڈیموکریٹک پارٹی نے قبول کرلیا۔ 2000 کے انتخابات کے بعد ڈیموکریٹس اور ریپبلکن دونوں کے تحت جمہوری حقوق پر ایک نہ ختم ہونے والا اور بڑھتا ہوا حملہ شروع ہوا جس میں لامحدود داخلی جاسوسی، ریاستی پالیسی کے طور پر ٹارچر کی منظوری بغیر کسی عمل کے غیر معینہ مدت تک حراست میں رکھنا اور امریکی شہریوں سمیت ڈرون کے زریعے قتل جیسے اقدامات شامل تھے۔

جمہوری طرز حکمرانی کے ٹوٹنے کی دو بنیادی بنیادی وجوہات ہیں: 1) نہ ختم ہونے والی اور بڑھتی ہوئی جنگ؛ اور 2) سماجی عدم مساوات کی انتہائی بلندی کو چُھوتی ہوئی بڑھوتی۔

2000 کے انتخابات کے بعد 'دہشت گردی کے خلاف جنگ' شروع ہوئی بشمول بش کے تحت افغانستان اور عراق پر حملہ اور اوباما کی قیادت میں مشرق وسطیٰ میں جنگوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا جو اب نیٹو طاقتوں اور روس کے درمیان کھلے تنازع میں تبدیل ہو چکا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ اور امریکی سامراج نے غزہ میں نسل کشی کی مکمل حمایت کی ہے جس کی وجہ سے جمعہ کو دی لانسیٹ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق، تقریباً 186,000 افراد یا کل آبادی کا تقریباً 8 فیصد ہلاک ہو گے ہیں۔

سرمایہ دارانہ طبقہ پورے ریاستی ڈھانچے کو کنٹرول کرتا ہے جو آبادی کی اکثریت محنت کش طبقے کے مفادات کے خلاف ایک مستقل سازش کے طور پر موجود ہے۔ بائیڈن کی قسمت کے بارے میں میڈیا کے تبصرے میں، ' چندہ دینے والوں ' کے زیادہ تر مسلسل حوالہ جات موجود ہیں یعنی کہ کارپوریٹ مالیاتی اولیگارچ جو ڈیموکریٹس اور ریپبلکن دونوں کی انتخابی مہم میں اربوں ڈالر چندہ دیتے ہیں۔ یہ یقینی طور پر اس لیے لیا جاتا ہے کہ حتمی فیصلہ مٹھی بھر ارب پتی کریں گے جو دونوں سرمایہ دار پارٹیوں کی مہمات کو مالی اعانت فراہم کرتے ہیں۔

امریکی جمہوریت کے گہرے ہوتے بحران پر تبصرہ کرتے ہوئے سوشلسٹ ایکویلیٹی پارٹی کے صدارتی امیدوار جوزف کشور نے ایکس پر میسج کیا کہ:

محنت کش طبقے کے لیے اہم سوال یہ ہے کہ وہ اپنے پروگرام کے ساتھ بحران میں مداخلت کرے۔ سرمایہ داری کے دائرے میں جمہوریت کو محفوظ نہیں رکھا جا سکتا۔ جمہوری حقوق کے دفاع اور توسیع کے لیے سرمایہ دار طبقے کی دولت کو ضبط کر کے ہی مالیاتی اشرافیہ اور کارپوریٹ کی آمریت کا خاتمہ ضروری بنایا جا سکتا ہے۔ امریکہ اور بین الاقوامی سطح پر مزدوروں کی ریاست کے قیام اور سماجی اور معاشی زندگی کی سوشلسٹ تنظیم نو کی ضرورت ہے۔ 

24 جولائی کو ورلڈ سوشلسٹ ویب سائٹ اور سوشلسٹ ایکویلیٹی پارٹی واشنگٹن ڈی سی میں ایک مظاہرے اور اجلاس کی میزبانی کریں گے جو اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے کانگریس سے خطاب کے اُسی روز ہے۔ اس تقریب کا مقصد محنت کش طبقے میں غزہ میں ہونے والی نسل کشی، سامراج اور سرمایہ داری کے خلاف اور جمہوری حقوق کے دفاع کے لیے تحریک پیدا کرنا ہے۔ ہم اپنے قارئین اور حامیوں سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ نیچے دیئے گئے فارم کو پُر کر کے مظاہرے میں شرکت کرنے اور اس میں مدد کرنے کا منصوبہ بنائیں۔

Loading