یہ 15 اکتوبر 2024 کو انگریزی میں شائع 'The October conspiracy: Biden administration escalates toward war with Iran' ہونے والے اس ارٹیکل کا اردو ترجمہ ہے۔
2024 کے صدارتی انتخابات سے صرف تین ہفتے سے بھی کم وقت رہ جانے کے بعد بائیڈن انتظامیہ نے ایران پر حملہ کرنے کے لیے نیتن یاہو حکومت کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت امریکی لڑاکا فوجیوں کو اسرائیل میں تعینات کر دیا ہے۔
اکتوبر میں ہونے والے واقعات کی ایک طویل تاریخ ہے جس کے آنے والے امریکی صدارتی انتخابات پر بڑے اثرات مرتب ہوں گے۔ اسرائیل میں امریکی فوجیوں کی تعیناتی سے بائیڈن انتظامیہ کملا ہیریس کے انتخابی امکانات کو متاثر کرنے کے لیے اتنی زیادہ کوشش نہیں کر رہی ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ انتخابات سے قبل فوجی کشیدگی کے منصوبے جاری ہیں۔ 'اکتوبر کے سرپرائز' کے بجائے یہ پورے مشرق وسطیٰ میں جنگ میں امریکی شمولیت کو بڑے پیمانے پر پھیلانے کی 'اکتوبر کی سازش' ہے۔
بدھ کے روز بائیڈن نے ایران سے متعلق مشترکہ منصوبوں پر بات کرنے کے لیے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو سے فون پر بات کی۔ کال کے دوران نیتن یاہو نے بائیڈن کو مطلع کیا کہ 'وہ ایران میں فوجی انفراسٹرکچر کو نشانہ بنانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں،' ایک امریکی اہلکار کے مطابق جس نے واشنگٹن پوسٹ کو اس ٹیلی فون گفتگو کی وضاحت کی۔ جس سے پھر واشنگٹن پوسٹ نے رپورٹ کیا کہ 'وزیراعظم کے موقف نے اسرائیل کو ایک طاقتور میزائل ڈیفنس سسٹم بھیجنے کے بائیڈن کے فیصلے پر دونوں رہنماؤں نے متفقہ عمل کیا۔'
دوسرے لفظوں میں بائیڈن نے نیتن یاہو کے ایران پر حملہ کرنے کے منصوبے پر دستخط کیے اور واضح کیا کہ امریکہ ایسے آپریشن کی حمایت کے لیے 'زمین پر اپنی فوجی موجودگی' فراہم کرے گا۔ اتوار کو محکمہ دفاع نے باضابطہ اعلان کیا کہ وہ اسرائیل کو ٹرمینل ہائی ایلٹیٹیوڈ ایریا ڈیفنس سسٹم(THAAD) میزائل دفاعی نظام بھیجے گا جسے تقریباً 100 امریکی فوجی چلا تے ہیں۔
ان لڑاکا فوجیوں کی تعیناتی مشرق وسطیٰ کی جنگ میں براہ راست امریکی شمولیت کے بہت زیادہ توسیع کا دروازہ کھولتی ہے۔ سی این این کے ساتھ ایک انٹرویو میں ریٹائرڈ ایئر فورس کرنل سیڈرک لیٹن نے دھمکی دی کہ'اگر ان فوجیوں کو کسی بھی طرح سے نقصان پہنچایا گیا تو اس کے نتیجے میں امریکہ کو جنگ میں گھسیٹا جا سکتا ہے اور اس کے اس وقت ہمارے تصور سے کہیں زیادہ اہم نتائج ہو سکتے ہیں۔
بائیڈن کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کے بعد کچھ دنوں میں اسرائیل نے ڈرامائی طور پر غزہ کی آبادی کے خلاف اپنے حملوں میں اضافہ کیا اور اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لبنان میں 'نیلی لکیر' کو عبور کرتے ہوئے لبنان میں اقوام متحدہ کے امن دستوں پر براہ راست حملہ کیا۔
بدھ کے روز ایسوسی ایٹڈ پریس نے اطلاع دی کہ نیتن یاہو شمالی غزہ کو شہریوں سے خالی کرنے اور اندر رہ جانے والوں کی امداد بند کرنے کے منصوبے پر 'غور' کر رہے ہیں۔
اس میں لکھا گیا ہے کہ 'اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو حماس کے عسکریت پسندوں کو فاقہ زدہ کر کے مارنے کی کوشش میں شمالی غزہ کے لیے انسانی امداد بند کرنے کے منصوبے کا جائزہ لے رہے ہیں، ایک ایسا منصوبہ جس پر عمل درآمد ہونے کی صورت میں لاکھوں فلسطینیوں کو خوراک اور پانی کے بغیر محصور کیا جا سکتا ہے۔ جو اپنے گھر چھوڑنے سے قاصر ہیں۔
'جو باقی رہیں گے انہیں جنگجو تصور کیا جائے گا- یعنی فوجی ضابطے فوجیوں کو ان کو مارنے کی اجازت دیں گے- اور خوراک، پانی، ادویات اور ایندھن مہیا کرنے پر انکار کر دیا جائے گا۔'
جب تک امریکی میڈیا یہ اعلان کرتا ہے کہ امریکہ یا اس کے پراکسی ایکشن لینے پر 'غور' کر رہے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ منصوبہ پہلے ہی طے ہو چکا ہے۔ درحقیقت، اسرائیل نے پہلے ہی شمالی غزہ کو سیل کر دیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ تمام باقی ماندہ باشندوں کو فرار ہو جائے اور جو باقی رہ گئے ہیں انہیں منظم طریقے سے قتل کر رہا ہے۔
گزشتہ دو دنوں کے دوران پوری دنیا میں لاکھوں لوگ الاقصیٰ شہداء ہسپتال کے مریضوں کو اسرائیلی فائربموں کے ذریعے زندہ جلائے جانے کی فوٹیج سے حیران اور خوف زدہ ہیں جو نسل کشی کے اس بڑھتے ہوئے آپریشن کے ایک حصے کے طور پر شروع کیا گیا ہے۔
یہ اعلان کر کے کہ امریکہ اس قتل عام کے دوران اسرائیل میں فوج بھیج رہا ہے بائیڈن انتظامیہ ڈیموکریٹک پارٹی اور ہیریس کی مہم جنگ مخالف جذبات کے لیے مکمل دشمنی اور حقارت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ اور دوسری جانب یہ اور زیادہ واضع کرتی جا رہی ہے کہ سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے کسی بھی حصے سے نسل کشی کو روکنے کی اپیل تمام کوششوں کی بے کاری کو بھی ظاہر کرتی ہے جو پوری طرح سے صنعتی پیمانے پر قتل و غارت میں ملوث ہے۔
لیکن نسل کشی خود ایک وسیع تر علاقائی اور عالمی جنگ سے جڑی ہوئی ہے جس کا فوری ہدف ایران ہے۔ گزشتہ ہفتے '60 منٹس' پر ایک انٹرویو میں ہیریس نے اعلان کیا کہ ان کا خیال ہے کہ ایران 'ہمارا سب سے بڑا مخالف ہے۔' ایران کے خلاف ممکنہ امریکی فوجی حملے کے بارے میں پوچھے جانے سوال پر اس نے اعلان کیا کہ 'میں اس وقت فرضی باتوں کے بارے میں بات نہیں کروں گی۔'
لیکن یہ کوئی فرضی منظرنامہ نہیں ہے۔ یہ ایران کے ساتھ جنگ میں سہولت فراہم کرنے کے لیے امریکہ کا ایک فعال منصوبہ ہے جس کے انتہائی دور رس اور تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے۔ امریکہ اور اسرائیل کا مقصد سامراجی تسلط میں مشرق وسطیٰ کی مکمل تنظیم نو ہے۔امریکہ نے کبھی بھی 1979 کے ایرانی انقلاب کے ساتھ کوئی مفاہمت نہیں کی جس نے شاہ کی امریکی حمایت یافتہ آمریت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ کئی دہائیوں سے یکے بعد دیگرے امریکی حکومتوں نے تہران میں حکومت کی تبدیلی اور ایرانی حکومت کی جگہ ایک نئی امریکی حمایت یافتہ آمریت کی منصوبہ بندی کی ہے۔
ایران کے ساتھ براہ راست جنگ کی طرف پیش قدمی خود روس کے خلاف امریکہ-نیٹو کی جنگ اور چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے تنازعہ سے جڑی ہوئی ہے۔
اسرائیل میں امریکی فوجیوں کی تعیناتی یوکرین میں نیٹو کو گہرے دھچکے کے سلسلے کے تناظر میں ہوئی ہے کیونکہ روسی افواج تمام محاذ پر پیش قدمی کر رہی ہیں۔ اس حقیقت کا سامنا کرتے ہوئے امریکہ عالمی تسلط کے لیے اپنی جنگ میں ایک نیا محاذ کھولنے کی کوشش کر رہا ہے۔
امریکی سامراج ایران کو روس کا مرکزی اتحادی اور اس کی فوجی کارروائیوں کے قابل بنانے والے کے طور پر دیکھتا ہے۔ یورپی کونسل برائے خارجہ تعلقات کی ایک حالیہ رپورٹ میں اعلان کیا گیا ہے کہ 'روس اب ایران پر ان طریقوں سے انحصار کرتا ہے جو فروری 2022 سے پہلے ناقابل تصور تھے یعنی کہ ایران جو کبھی ثانوی کھلاڑی تھا اب یوکرین کی جنگ میں روس کے سب سے اہم شراکت داروں میں سے ایک ہے۔'
امریکی حکمت عملی کے ماہرین کا خیال ہے کہ ایک بار جب وہ ایران کی تیل کی سپلائی پر قبضہ کر کے محفوظ کر لیں گے تو وہ روس اور بالآخر چین کے ساتھ اپنی جنگ کو بڑھانے کے لیے بہتر پوزیشن میں ہو گا۔ زیادہ سے زیادہ امریکی جنگی منصوبہ ساز امریکی سامراج کی طرف سے نشانہ بنائے گئے ان تمام ممالک کو 'برائی کا نیا محور' قرار دے رہے ہیں جو بش انتظامیہ کی طرف سے عراق پر حملے کے دوران تیار کیے گئے جملے کو اپناتے ہیں۔
جنگ کے خلاف جدوجہد کے لیے ایک نئی حکمت عملی ضروری ہے جو ایک جزوی اور کمزور شکل کی بجائے ایک توانا اور ٹھوس حکمت عملی کے اقدامات پر استوار ہو نہ کہ سامراجی طاقتوں سے اخلاقی بنیادوں پر اپیلوں پر مبنی ہو۔ گزشتہ ہفتے غزہ کی نسل کشی کی برسی کی یاد میں سوشلسٹ ایکویلیٹی پارٹی کے آن لائن ویبنار میں اپنے ریمارکس میں، ورلڈ سوشلسٹ ویب سائٹ ایڈیٹوریل بورڈ کے چیئرمین ڈیوڈ نارتھ نے اعلان کیا، 'ہر عظیم دور کی طرح یہ یا تو ہے یا۔ یا تو بنی نوع انسان ترقی کرتی ہے یا اسے تباہی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر سماجی انقلاب ناممکن ہے تو اس کا مطلب ہے کہ بنی نوع انسان کی بقاء ناممکن ہے۔
پوری دنیا پر آنے والی فوجی تباہی سے بچنے کی جدوجہد میں کوئی 'آسان راستہ' یا شارٹ کٹ نہیں ہے۔ اس کے لیے محنت کش طبقے میں جڑیں اور بین الاقوامی سوشلزم کے تناظر سے مسلح ایک وسیع سوشلسٹ جنگ مخالف تحریک کی تعمیر کی ضرورت ہے۔