یہ 8 دسمبر 2023 کو انگریزی میں شائع ہونے 'Trump threatens dictatorship, but 'Genocide Joe' is no alternative' والے اس تناظر کا اردو ترجمہ ہے۔
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو عوامی طور پر کھل کر اعلان کیا کہ اگر وہ اگلے سال کے صدارتی انتخابات میں وائٹ ہاؤس دوبارہ حاصل کر لیتے ہیں تو وہ ایک 'آمر' کے طور پر کام کریں گے۔
فاکس نیوز پر نشر ہونے والے 'ٹاؤن ہال' میں اپنے چنے ہوئے حامیوں اور سامعین سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ کو ان کے میزبان سان ہینٹی نے ان دعوؤں کو رد کرنے کے لیے مدعو کیا تھا جس کی اس ہفتے کارپوریٹ میڈیا میں بڑے پیمانے پر تشہیر کی گئی تھی کہ اگر وہ اقتدار میں واپس آئے تو وہ آمرانہ طریقے سے حکومت کریں گے۔
سان ہینٹی نے سوال کیا کہ 'آپ آج رات امریکہ سے وعدہ کر رہے ہیں آپ کبھی بھی کسی کے خلاف انتقام کے طور پر طاقت کا غلط استعمال نہیں کریں گے؟'۔ ٹرمپ نے کہا کہ وہ ایک آمر کے طور پر کام نہیں کریں گے 'سوائے پہلے دن کے' وہ یو ایس میکسیکو سرحد کو بند کرنے اور فوسل فیول انڈسٹری پر تمام پابندیاں ختم کر دیں گے۔
یہ تبصرہ ایک سنگین خطرے کی نشان دھی کرتا ہے۔ ٹرمپ کو معلوم ہے کہ اگر وہ اقتدار میں واپس آتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہوگی کہ اسے سرمایہ دارانہ ریاست کے اندر خاص طور پر فوج اور سرحد پر گشت کرنے والی ایجنسیوں کی خاصی حمایت حاصل ہے تاکہ وہ ایک شخصی آمریت کو استعمال کر سکے جو اس کی انتظامیہ عوامی مزاحمت پر بے رحمانہ جبر کرے گی جو کہ لامحالہ پھٹ جائے گی۔
بائیڈن کی مہم نے آمریت کے بارے میں ٹرمپ کے تبصروں کو ہاتھوں ہاتھ لیتے ہوئے فاکس نیوز ٹاؤن ہال کے ان خبروں کے متن کو فنڈ ریزنگ کی ای میلز میں چند منٹوں میں ہی بھیجے دییان میں سے ایک کی سرخی تھی کہ 'ڈونلڈ ٹرمپ: ڈے ون ڈکٹیٹر۔' اور دی ہل کی سرخی کے طور پر 'ٹرمپ کا 'ڈکٹیٹر' کے طور پر تبصرہ 2024 کی مہم کو وہیں رکھتا ہے جہاں بائیڈن چاہتے ہیں۔'
بائیڈن نے خود بوسٹن کے فنڈ ریزنگ ڈنر میں بتایا کہ وہ 'انتخابات سے انکار کرنے والے اُس سربراہ کے خلاف لڑ رہے ہیں' جو 'امریکی جمہوریت کو تباہ کرنے کے لیے پرعزم ہے۔' کارپوریٹ میڈیا میں ان کے حامیوں کے تبصروں کے ساتھ ساتھ بائیڈن کے بیانات کا مقصد ٹرمپ کے خلاف عوامی مخالفت کو ڈیموکریٹک پارٹی کے چینلز کی طرف موڑنا ہے۔
ایسی اپیلوں کا جمہوری حقوق کے دفاع سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جو غزہ کی نسل کشی کی مخالفت کرنے والے طلباء کے احتجاج کے خلاف انتقامی کاروائیوں میں واضع طور پر ظاہر ہے جسے کانگریسی ڈیموکریٹس اور وائٹ ہاؤس نے 'یہود دشمنی' قرار دیا ہے۔ پرامن احتجاج کے آئینی حق کو اس وقت ختم کر دیا جاتا ہے جب یہ احتجاج اسرائیلی جنگی جرائم کے خلاف ہوں جنہیں امریکی حکومت کی حمایت اور اجازات دی جاتی ہے۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک سابق صدر جس نے 6 جنوری 2021 کو آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تشدد کے ذریعے اقتدار میں رہنے کی کوشش کی تھی اور 2020 کا الیکشن 70 لاکھ ووٹوں سے ہارنے کے بعد بھی اب وہ بائیڈن کے خلاف ہونے والے انتخابات میں آگے ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی نے بائیڈن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد محنت کشوں کے سماجی مسائل کو نظر انداز کر دیا جو اسکے اقتدار میں نمایا تھے اس کے بجائے ریپبلکن پارٹی اور خاص طور پر ٹرمپ کے احیاء میں مدد اور حوصلہ افزائی کی ہے۔ مہنگائی کے اثرات کوویڈ -19 سے مسلسل بڑے پیمانے پر اموات (وبائی مرض کے متاثرین کی اکثریت کی اموات بائیڈن کی حکومت کے تحت ہوئی ہے نہ کے ٹرمپ کی حکومت کے تحت) اور ملازمتوں، اجرتوں اور کام کے حالات کارپوریٹ تباہی کے نتیجے میں یہ مسائل مزید بدتر ہو گئے ہیں۔
بائیڈن نے وبائی امراض کے متاثرین کی معاشی مدد کو برقرار رکھنے مزدوروں کے معیار زندگی کو بلند کرنے مزدوروں کے خلاف پولیس کے تشدد کو روکنے اور کالج کے طلباء اور گریجویٹوں پر قرضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ کو کم کرنے کے اپنے انتخابی مہم کے وعدوں کو ترک کر دیا۔
ان سماجی ضروریات کو پورا کرنے کے بجائے بائیڈن انتظامیہ نے جنگ اور عسکریت پسندی پر یک طرفہ توجہ مرکوز رکھی اور روس کے خلاف یوکرین میں جنگ کو اکسایا اور پھر اس میں مداخلت کی اور اب غزہ میں اسرائیلی نسل کشی کی منظوری دے کر اسے فعال بنایا۔ دریں اثنا ایشیا پیسیفک کے خطے میں اس سے بھی زیادہ خوفناک جنگ کی تیاری میں مسلسل فوجی تیاریاں جاری ہیں اس بار چین کے خلاف جو روس کی طرح جوہری ہتھیاروں سے لیس طاقت ہے۔
محنت کش لوگوں کی ضروریات کے بارے میں اس کی ڈھٹائی سے لاتعلقی بائیڈن کی سیاسی حمایت کے خاتمے کا باعث بنی ہے یہاں تک کہ رائے عامہ کے جائزوں کے غیر فعال رجسٹرڈ کی شکل کے زریعے میں بھی حمایت گِر گی ہے۔ بائیڈن کے حق میں رائے عامہ کی درجہ بندی اب 40 فیصد سے نیچے ہے اور وہ اب ٹرمپ سے تمام اہم 'میدان جنگ' ریاستوں میں نمایاں مارجن سے پیچھے ہیں جن میں ڈیموکریٹس نے 2020 میں کامیابی حاصل کی تھی۔
بائیڈن کی سیاسی حیثیت میں سب سے حالیہ کمی اس کے غزہ میں نسل کشی کو قبول کرنے کا براہ راست نتیجہ ہے جس نے نوجوانوں اور طلباء کو اپنے سے الگ اور بیگانہ کر دیا ہے جو ٹرمپ کے خلاف سب سے زیادہ مخالف سماجی پرتوں میں سے ایک ہے۔ بائیڈن انتظامیہ نے بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں کو معمولی رعایت دینے سے بھی انکار کر دیا ہے جس نے ریاست اسرائیل کی طرف سے امریکی فراہم کردہ بموں، میزائلوں اور جنگی طیاروں کا استعمال کرتے ہوئے جنگی جرائم کے خلاف لاکھوں افراد کو متحرک کیا ہے۔
بائیڈن محنت کش طبقے اور نوجوانوں سے حقیقی اپیل کرنے سے قاصر ہیں۔ اس کے بجائے وہ اعلیٰ متوسط طبقے کی مراعات یافتہ پرتوں سے اپیل کرتا ہے بشمول ٹریڈ یونین بیوروکریسی کے اس نے ان کے ساتھ مل کر مزدوروں سے غداری کرکے ان پر مزدور دشمن معاہدے مسلط کرتے ہوئے ہڑتالوں پر پابندی لگا دی ہے، جیسا کہ ایک سال پہلے ریل روڈ کے مزدوروں کی طرف سے جب آجروں کے ساتھ کھلے عام تنازعہ سے مزدوروں کے یونینوں کے کنٹرول سے باہر ہونے کا خطرہ بڑھ گیا تھا۔
بائیڈن انتظامیہ سے بڑے پیمانے پر بیگانگی سے ریپبلکن فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن تارکین وطن پر شاونسٹ حملوں، سماجی فوائد میں کمی اور جمہوری حقوق کی قیمت پر مذہبی تعصب کو بلند کرنے کا ان کا پروگرام شدید رجعت پسند اور محنت کش طبقے کے خلاف ہے۔
ٹرمپ ریپبلکن پارٹی کی صدارتی نامزدگی جیتنے کے لیے زبردست انتخابی امیدوار ہیں۔ یہ اپنے آپ میں معروضی اہمیت رکھتا ہے جو کہ ریپبلکن پارٹی کے مطلق العنان حکمرانی کے آلے میں تبدیل ہونے کی تصدیق کرتا ہے یہ نام کے علاوہ ایک فاشسٹ پارٹی ہے یہ امریکہ میں سرمایہ دارانہ سیاسی نظام کی انتہائی کمزوری اور بحران کا مظہر ہے۔
آج بھی تاہم ڈیموکریٹس اس تبدیلی کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں اور بائیڈن اور کانگریسی ڈیموکریٹک رہنما ملکی اور خارجہ دونوں پالیسیوں میں دونوں پارٹیوں کی حمایت سے انجینئر کرنے کے لیے اپنی برسوں سے جاری کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ریپبلکنز کے ساتھ ان کا بنیادی تنازعہ یہ ہے کہ ہاؤس ریپبلکن یوکرین میں دائیں بازو کی حکومت کے لیے مزید 60 بلین ڈالر کے امریکی ہتھیاروں کی منتقلی کو روک رہے ہیں جس کی موسم گرما میں روس کے خلاف کارروائی شکست میں بدل گئی ہے۔
ٹرمپ آمرانہ حکمرانی کے خطرے کو ظاہر کر سکتے ہیں لیکن یہ ایک گہرا عمل ہے جو سرمایہ دارانہ سیاست کو مجموعی طور پر فاشزم کی طرف لے جا رہا ہے۔ ڈیموکریٹس ٹرمپ پر چند تنقیدیں تو کرتے ہیں لیکن وہ یوکرین میں نو نازی قوتوں اور غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف قتل عام کی جنگ میں نسل کشی کرنے والے صہیونیوں کے ساتھ ہیں۔
مزید یہ کہ یہ ایک ایسا رجحان ہے جس کا بین الاقوامی کردار ہے۔ یکیبعد دیگر ممالک میں سرمایہ دار طبقہ آمرانہ طرز حکمرانی کی طرف مڑ رہا ہے اور فاشسٹ جماعتوں کو اقتدار میں لا رہا ہے- اٹلی، نیدرلینڈز، فن لینڈ، سویڈن اور ارجنٹائن جو سب سے حالیہ مثال ہیں، لیکن جرمنی، فرانس، اسپین اور پورے مشرقی یورپ میں ایک بڑھتا ہوا خطرہ موجود ہے۔
بورژوازی بین الاقوامی محنت کش طبقے کی ہڑتالوں سے خوفزدہ ہے جس نے پوری صنعتوں اور ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور آسٹریٹی کے اقدامات اور جمہوری حقوق پر حملوں کے خلاف بڑے پیمانے پر جس کا اظہار سیاسی مظاہروں میں ہو رہا ہے۔ طبقاتی جدوجہد میں یہ اضافہ معیار زندگی، ملازمتوں اور سماجی فوائد پر گہرے حملوں کے جواب میں ہے۔ لیکن حکمران طبقے کے پاس جبر اور جنگ کے علاوہ اس تحریک کا کوئی جواب نہیں ہے۔
ریاستہائے متحدہ میں 2024 کے انتخابات بڑھتے ہوئے سماجی اور سیاسی تناؤ کے ماحول میں سامنے آئیں گے۔ بائیڈن ٹرمپ کے مقابلے میں کم برائی نہیں ہیں۔ سیاسی طور پر یہ حساب لگانے کی کوشش کرنا فضول ہے کہ کون سی بڑی برائی ہے۔ ڈیموکریٹ اور ریپبلکن دونوں سرمایہ دار حکمران اشرافیہ کی نمائندگی کرتے ہیں اور امریکی سامراج کے عالمی تسلط کا دفاع کرتے ہیں۔ ان کے اختلافات خالصتاً حکمت عملی پر مبنی ہیں: محنت کش طبقے کو دبانے کے لیے داخلی طور پر کون سے طریقے استعمال کیے جائیں اور کون سے بیرونی ممالک کو فوجی تشدد کا نشانہ بنایا جائے۔
ملازمتوں، معیار زندگی اور جمہوری اور سماجی حقوق کے دفاع کے لیے محنت کش طبقے کی تحریک دونوں سرمایہ دار پارٹیوں کی پالیسیوں کے متضاد ہے۔ اس تحریک کو نظریاتی طور پر مسلح کرنے کے لیے سمجھ بوجھ اور تلخ طبقاتی کشمکش کی اس معروضی حقیقت سے ہم آہنگ کرنے کے لیے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ محنت کشوں کی تحریک میں ایک سوشلسٹ اور انقلابی تناظر لانا اور اس جدوجہد میں سوشلسٹ ایکویلیٹی پارٹی کی تعمیر کرنا۔