اُردُو
Perspective

آج ڈی ڈے جشن کی تقریب ہے: جو سیاسی پروپیگنڈے اور تاریخی جعل سازی کی ایک مزموم ریہرسل ہے۔

یہ 6 جون 20124 کو انگریزی میں شائع ہونے والے 'Today’s D-Day celebration: An exercise in political propaganda and historical falsification' اس تناظر کا اردو ترجمہ ہے۔

امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا کی اتحادی افواج کے نارمنڈی پر حملے کی 80 ویں برسی کی یادگار جو سیاسی پروپیگنڈے اور تاریخی جعل سازی کی قابل مزمت سرگرمی ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ غزہ میں نسل کشی کی توثیق کر رہے ہیں اور روس کے خلاف جنگ کو لاپرواہی سے بڑھا رہے ہیں امریکہ-نیٹو کے پبلیسٹی کرنے والے ایجینٹ 6 جون 1944 کے واقعات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں تاکہ موجودہ سامراجی حکومتوں کی مجرمانہ پالیسیوں کو جواز بنایا جا سکے۔

امریکی جوائنٹ ملٹری سروس اکیڈمی کوئر کے اراکین سینٹ-میری-ڈو-مونٹ، نارمنڈی فرانس بدھ 5 جون 2024 کو یوٹا بیچ کے قریب ایک تقریب میں حصہ لے رہے ہیں۔ [اے پی فوٹو/ڈینیل کول] [AP Photo/Daniel Cole]

مکمل طور پر اور دو ٹوک الفاظ کہا جائے تو نیٹو کی یہ پالیسیاں اور اہداف نازی حکومت سے ملتے جلتے ہیں جس کے خلاف اتحادیوں نے دوسری عالمی جنگ میں لڑا تھا۔ ہٹلر اگر اس موقع پر دوبارہ زندہ ہوتا تو امریکی صدر بائیڈن، برطانوی وزیر اعظم سنک، فرانسیسی صدر میکرون اور جرمن چانسلر سکولز کی سیاسی صحبت میں اُسے یہ سب کچھ بالکل اپنا ہی لگتا۔ وہ نارمنڈی کے جشن کے ذریعے فراہم کردہ موقع کا استعمال کرتے ہوئے انہیں مشورہ دیں گے کہ روس کے خلاف نیٹو کی جنگ کو کیسے بڑھایا جائے۔

امریکہ اور برطانیہ کے اعتراضات کے جواب میں روس کی ڈی ڈے کے یادگار پر میکرون کے دعوت کی منسوخی کے فیصلے سے ہٹلر یقینا بہت خوش ہوا ہو گا۔ انکے لیے روسی وفد کی موجودگی ایک ناپسندیدہ یاد دہانی کا باعث ہوتی کیونکہ سوویت یونین کا تیسرے ریخ کی شکست میں ایک فیصلہ کن شراکت اور اہم کردار تھا۔ سوویت یونین کی تحلیل اور سرمایہ داری کی بحالی کے باوجود بھی روس ہمیشہ سامراجی طاقتوں کے ذہنوں پر اکتوبر 1917 کا سوشلسٹ انقلاب بوجھ بن کر سوار رہے گا۔

بائیڈن انتظامیہ کے ایک اہلکار نے گزشتہ ماہ پولیٹیکو جریدے کو بتایا کہ ہم اسے فرانسیسی حکومت پر چھوڑنا پسند کیں گے کہ وہ نارمنڈی میں یادگاری تقریب کا اہتمام کرے۔ 'لیکن شاید یہ روسیوں کو یاد دلائے گا کہ وہ حقیقت میں ایک بار حقیقی نازیوں سے لڑے تھے یوکرین میں خیالی نہیں۔'

کیف حکومت میں نازیوں سے محبت کرنے والے کافی حقیقی عاشق موجود ہیں۔ یوکرین کے فاشسٹ قاتل سٹیپن بانڈرا جس کی افواج نے سوویت یونین کے خلاف وہرماچٹ (آرمڈ فورسز) کے ساتھ مل کر لڑا اور نازی ہولوکاسٹ میں تعاون کیا تھا نے یوکرین میں ایک عظیم قومی ہیرو کا درجہ حاصل کر لیا ہے۔

تلخ حقیقت یہ ہے کہ بائیڈن اور ان کے ساتھی سامراجی رہنما نازیوں کے زیر کنٹرول فرانس پر بحری اور بری حملے کے 80 سال مکمل ہونے کا جشن منا رہے ہیں جبکہ اب نیٹو طاقتوں نے خود مشرقی محاذ پر نازی جرمنی کے ہدف کو اپنا لیا ہے جس کا مقصد روس کو زیر کر کے اسکا خاتمہ اور اس کے وسیع علاقوں اور وسائل کا استحصال ہے۔ 80 ویں سالگرہ یوکرین میں جنگ کو آگے بڑھانے اور نیٹو کی مداخلت کی راہ ہموار کرنے کے لیے استعمال کی جانی ہے۔

مزید یہ کہ یہ جدوجہد ہٹلر اور مسولینی کی سیاسی اولادوں کے ساتھ مل کر چلائی جا رہی ہے۔ میکرون نے اعتراف کیا ہے کہ پورے یورپ میں فاشسٹ سیاسی قوتوں کا حقیقی عروج ہے جب کہ اُس نے خود ایک عظیم سپاہی کے طور پر تعاون پسند وچی حکومت کے رہنما فلپ پیٹن کی ستائش کی ہے۔ اگلے ہفتے بائیڈن اٹلی میں جی 7 سربراہی اجلاس کے لیے یورپ واپس آئیں گے جس کی میزبانی ایک فاشسٹ وزیر اعظم جارجیا میلونی کرے گی جو مسولینی کے فرقے کی دیرینہ پیروکار ہیں۔

اور اسی طرح غزہ میں امریکی سرپرستی میں ہٹلر کے طریقوں کو زندہ کیا جا رہا ہے جہاں اسرائیلی دفاعی افواج فلسطینی آبادی کے خلاف نسل کشی کی مہم چلا رہی ہیں جہاں ہر طرف قتل عام غیر محفوظ شہری محلوں پر بمباری اور بڑے پیمانے پر فاقہ کشی شامل ہے۔ آج تک اسرائیل کی طرف سے غزہ پر جتنے بم گرائے گئے ہیں وہ دوسری عالمی جنگ کے دوران لندن، ہیمبرگ اور ڈریسڈن شہروں پر گرائے جانے والوں سے کہیں زیادہ ہیں۔

ڈی ڈے کی تقریبات کے لیے صدر جو بائیڈن کے دورہ فرانس میں یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے ساتھ ملاقات بھی شامل ہو گی تاکہ اس بڑے فوجی امدادی پیکج کی پیروی کی جا سکے جو بائیڈن نے آخر کار کانگریس کے ذریعے حاصل کیا اور چھ ہفتے قبل اسے قانونی حیثیت دے دی گی تھی۔ بائیڈن ایک باضابطہ سرکاری دورے کے دوران میکرون سے بھی ملاقات کریں گے جب فرانسیسی صدر کی جانب سے سامراجی طاقتوں کی قیادت میں تجویز پیش کی گئی تھی کہ نیٹو کے زمینی دستوں کو یوکرین میں تعینات کیا جانا چاہیے اور اس اقدام کے نتیجیے میں تنازع نیٹو اور روس کے درمیان کھلی جنگ کی شکل اختیار کر جائے گا اور یہ پھر پورے پیمانے پر جوہری تصادم کے خطرے کے ساتھ ہمکنار ہو جائے گا۔

جبکہ بائیڈن جمہوریت کے دفاع کے بارے میں جھوٹے جملے کسیں گے جسکا ہر لفظ غلاظت اور فریب پر مبنی ہوگا۔ امریکی سامراج عالمی سیاسی اور سماجی ردعمل کا گڑھ ہے۔ اس کی پالیسیوں کا رخ دنیا کے لوگوں کی غلامی کی جانب گامزن ہے نہ کہ کسی آزادی یا جموریت کی خاطر۔

سامراج کے عصری جرائم کا جواز پیش کرنے کے لیے ڈی-ڈے میموریل کے مذموم استحصال کے علاوہ 6 جون 1944 کے واقعات کی پرستش ہمیشہ ان حقیقی مفادات کے بنیادی جھوٹ سے جڑی رہی ہے جن کا تعاقب دوسری عالمی جنگ میں امریکہ اور برطانیہ کرتے تھے۔ 

اس میں کوئی شک نہیں کہ 80 سال قبل ساحلوں پر دھاوا بولنے والے سپاہی ہٹلر اور نازی ازم سے نفرت کرتے تھے جو بہادر اور حوصلہ مند تھے۔ اس دن مرنے والے ہزاروں جوان فوجیوں کو یاد کیا جانا چاہئے اور ان کی تعظیم کی جانی چاہئے۔ لیکن ان کے آئیڈیلزم اور احساس کو امریکی اور برطانوی سامراج کے سیاسی لیڈروں نے استمعال کیا جو بخوبی سمجھتے تھے کہ جنگ کو صرف فاشزم کے خلاف جدوجہد کے طور پر منڈی میں فروخت کرنے سے ہی عوامی حمایت حاصل ہو سکتی ہے۔ یہ پاپولر فرنٹزم کا دور تھا اور یو ایس ایس آر کے ساتھ جنگ ​​کے وقت کا اتحاد تھا جس میں سٹالنسٹ سامراجیوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے تھے تاکہ آبادی کی نظر میں جنگ کو جائز بنایا جا سکے۔

ہٹلر کے بڑے پیمانے پر حملے کے خلاف سوویت یونین میں اس حملے کے خلاف جدوجہد میں اسے بہت زیادہ عوامی ہمدردی حاصل تھی جو تاریخ کا سب سے بڑا فوجی حملہ تھا جس کا مقصد اجتماعی قتل عام کے ذریعے مارکسزم اور سوشلزم کو ختم کرنا تھا۔ سٹالن کے ناقابل بیان جرائم کے باوجود جن میں ٹراٹسکیوں اور دیگر انقلابیوں کا بڑے پیمانے پر پارٹی سے اخراج اور قتل عام اور ریڈ آرمی کی پوری قیادت کا خاتمہ کے علاوہ سٹالن-ہٹلر کا معاہدہ بھی شامل ہے۔ سوویت عوام نے اکتوبر انقلاب کی فتوحات اور باقی ماندہ فوج کے دفاع میں اپنی پوری طاقت کے ساتھ جنگ ​​لڑی۔ ریڈ آرمی سٹالن گراڈ جیسی لڑائیوں میں روزانہ 10,000 سپاہی کھو رہی تھی۔ اس کے مقابلے میں مغرب میں سب سے خونی دن، ڈی-ڈے سے ہونے والی ہلاکتوں کی تخمینہ لگ بھگ 5,000 سے کم ہے۔

جہاں روزویلٹ نے مقبول جمہوری اور فاشسٹ مخالف جذبات کا مؤثر طریقے سے استحصال کیا وہاں پردے کے پیچھے ایک ابھرتے ہوئے امریکی سامراج اور اس کے برائے نام اتحادی برطانوی سلطنت کے درمیان ایک زبردست رسہ کشی جاری تھی۔ چرچل مغرب میں سٹالن کی مایوس کن درخواستوں کے باوجود 'دوسرے محاذ' کے آغاز میں تاخیر کی مزاحمت کر رہا تھا تاکہ سوویت یونین کا مزید خون بہایا جا سکے برطانیہ کی کوششیں جنوبی یورپ، مشرق وسطیٰ اور سب سے بڑھ کر برصغیر پاک و ہند پر مرکوز کرنے پر تھیں۔ یہاں تک کہ اس نے بحیرہ ایڈریاٹک کے پار یوگوسلاویہ کے علاقے میں اٹلی سے امریکی -برطانوی حملے پر اصرار کیا تاکہ اس ملک میں انقلابی جدوجہد کو روکا جا سکے اور یونان میں برطانوی مفادات کا تحفظ کیا جا سکے اور اتحادیوں کو جرمن سوویت جنگ میں براہ راست تیار کیا جاسکے۔

جب امریکی، برطانوی اور کینیڈا کی فوجیں نارمنڈی پر اتریں تو ریڈ آرمی نے یوکرین اور مغربی روس میں نازی افواج کو فیصلہ کن شکست دے چکی تھی لینن گراڈ کا نازی محاصرہ توڑ کر بالٹک ریاستوں پر دوبارہ قبضہ کر لیا اور ایک عام جوابی کارروائی کے حصے کے طور پر ویانا اور برلن کی طرف روانہ ہونے کے لیے پولینڈ میں داخل ہونے کے راستے پر تھی۔ زیادہ تر تاریخی تخمینوں کے مطابق ہٹلر نے سوویت فوج کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی دو تہائی فوجی دستوں تقریباً 200 ڈویژنوں کو تعینات کیا تھا، جبک اطالوی جزیرہ نما کی جانب اتحادی افواج کی متوقع کراس چینل لینڈنگ کا سامنا کرنے والے علاقے کے لیے صرف 50 ڈویژنوں بریگیڈز دستیاب تھیں۔ (روم کی آزادی نارمنڈی کی لینڈنگ سے دو دن پہلے 4 جون 1944 کو ہوئی تھی۔)

ڈی ڈے کے کامیاب لینڈنگ کے نو دن بعد امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ نے ایک تقریر میں امریکی سامراج کے جنگی مقاصد کا خاکہ پیش کیا جس میں انہوں نے اقوام متحدہ کے حتمی قیام کی بنیاد رکھی جو کہ جنگ کے وقت کے فاتحین میں مال دولتِ کی غنیمت کی تقسیم کے لیے ایک سیاسی آلہ ہے۔ ریاستہائے متحدہ میں اس وقت کے ٹراٹسکیسٹ اخبار دی ملٹینٹ میں ایک تبصرہ نے یوں دلیل دی:

اتحادی فوجی جو اپنا خون بہا رہے ہیں یہ یورپی عوام کو نازی ازم سے آزادی دلانے کے لیے نہیں ہے نہ کہ تمام اقوام اور لوگوں کے حق خود ارادیت کے حق کو یقینی بنانے کے لیے اور نہ ہی زمین کے چاروں کونوں میں 'چار آزادیوں' کو قائم کرنے کے لیے ہے بلکہ طاقت کے نظام کے پرانے توازن کو اس طرح بحال کرنا کہ امریکی سامراج کے عالمی تسلط کی ضمانت دی جائے۔

ٹراٹسکیسٹ اخبار نے امریکی اور برطانوی سامراج کے رد انقلابی اجتماعی قاتل اسٹالن کے تحت سوویت بیوروکریسی کے ساتھ اتحاد کے مرکزی سیاسی مقصد

کو بیان کیا کہ:

'بین الاقوامی تنظیم' کے تھیلے میں لپٹے ہوئے نئے سہ رخی اتحاد کا ایک اور کام یورپ اور پوری دنیا کو سوشلسٹ انقلاب کے جان لیوا خطرے کے خلاف پولیس کے ذریعے نگرانی کرنا ہے۔ سٹالن بھی سامراجیوں کی طرح سوشلسٹ انقلاب سے خوفزدہ ہے۔ سوویت بیوروکریسی جانتی ہے کہ یورپ میں کہیں بھی کامیاب سوشلسٹ انقلاب اسے اقتدار سے ہٹا دے گا۔

پولیس کی نگرانی کے اس مقصد کا نمونہ اٹلی اور شمالی افریقہ میں پہلے ہی واضح طور پر سامنے آچکا ہے، جہاں پولیس فوجی آمریتوں کو اتحادیوں کے سنگینوں کے ساتھ مسلط کیا جا رہا ہے۔ یہ وال سٹریٹ کے آقاؤں کے سیاہ رجعتی مقاصد ہیں۔ یہ ان کے 'جنگی مقاصد' ہیں۔ یہ ان کے 'جنگ کے بعد کے منصوبے' ہیں۔

جب ڈی-ڈے کا آپریشن اوور لارڈ جاری تھا 18 امریکی ٹراٹسکی رہنما عالمی جنگ کی مخالفت کرنے پر جیل میں تھے جبکہ چار برطانوی ٹراٹسکی رہنماوں پر مقدمہ چلایا گیا تھا اور جلد ہی انہیں اسی طرح کے اصولی جنگی مخالف کی وجہ سے قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ 

ڈی ڈے کے 80 سال بعد دنیا ایک نئے عالمی تصادم کے دہانے پر کھڑی ہے۔ یادگاری تقریب سے پہلے بائیڈن اور دیگر سامراجی رہنماؤں نے یوکرین کو روسی سرزمین پر نیٹو کی طرف سے فراہم کردہ میزائلوں سے حملہ کرنے کا اختیار دیا، جس سے بڑے پیمانے پر جوہری ہتھیاروں سے لیس ریاست کے خلاف نیٹو کی جنگ میں اضافہ ہو گا۔ اور اس کے ساتھ ہی جنگ میں اضافہ ولادیمیر پیوٹن کی سربراہی میں روس کی رجعتی خارجہ پالیسی کے دیوالیہ پن کو ظاہر کرتا ہے جو اپنے سامراجی 'شراکت داروں' کو ماسکو کے مفادات کے موافق معاہدہ کرنے کے لیے فوجی دباؤ کا استعمال کرنا چاہتا ہے۔

ڈی-ڈے کا آج کا سرکاری جشن سامراجی جنگجوؤں کا ایک اجتماع ہے جو تھرڈ ریخ کے رہنماؤں کی طرح 'امن کے خلاف جرائم' اور 'انسانیت کے خلاف جرائم' میں مصروف ہیں۔ 6 جون 1944 کو مارے جانے والے فوجیوں کو ان کی مقدس خراج عقیدت پیش کرنے کے بعد اگلے ماہ واشنگٹن ڈی سی میں ایک میٹنگ ہوگی، جہاں بائیڈن انتظامیہ کی ہدایت پر نیٹو رہنما روس کے خلاف جنگ کی توسیع پر عمل درآمد کریں گے بشول چین کے خلاف مستقبل کی کارروائیاں اور ان کی منصوبہ بندی کریں گے۔

اب مرکزی چیلنج محنت کش طبقے کا ایک بڑے پیمانے پر بین الاقوامی تحریک کی تعمیر ہے نسل کشی اور مسلسل فوجی اضافہ کے خلاف جس سے کرہ ارض کی تباہی کا خطرہ ہے۔

Loading