یہ 31 مئی 2024 کو انگریزی میں شائع ہونے والے 'Biden gives go-ahead for NATO attacks on Russia: A new stage in the escalating imperialist world war' اس تناظر کا اردو ترجمہ ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے انتہائی دائیں بازو کی یوکرائنی حکومت کی طرف سے روس پر امریکی میزائل داغنے کی منظوری دے دی ہے جب کہ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون اگلے ہفتے کے اوائل میں یوکرین میں 'فوجی ٹرینرز' کی تعیناتی کا اعلان کر سکتے ہیں۔
یہ پیش رفت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ کس طرح امریکی اور یورپی سامراجی طاقتیں جوہری ہتھیاروں سے لیس روس کے ساتھ جنگ کو ایک عالمی انتشار کی طرف بڑھا رہی ہیں جسے صرف بین الاقوامی محنت کش طبقے کو سیاسی طور پر متحرک کرتے ہوئے روکا جا سکتا ہے۔
ایک امریکی اہلکار کے مطابق 'صدر نے حال ہی میں اپنی ٹیم کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ یوکرین امریکی ہتھیاروں کو کھارکیو میں جوابی فائرنگ کے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے قابل ہو،' اس امریکی اہلکار کے مطابق یہ انکشاف سموار کو بلغاریہ کے دارالحکومت صوفیہ میں نیٹو کی پارلیمانی اسمبلی کے اجلاس کے بعد ہوا جس میں فوجی اتحاد نے یوکرین میں روس کو 'اسٹریٹیجک شکست' دینے کا عزم کیا۔ یہ پیش رفت واضح کرتی ہے کہ امریکی سامراج کے رہنما ایک جوہری ہتھیاروں سے لیس ریاست روس کے ساتھ جنگ کو تیزی سے بڑھا رہے ہیں۔
بائیڈن اور ان کے مشیروں کا بظاہر مفروضہ یہ ہے کہ پیوٹن جوابی کارروائی نہیں کریں گے اور اس لیے وہ روس پر حملہ کرنے کے لیے آزاد ہیں۔ یہ ایک غیر معمولی طور پر لاپرواہ مفروضہ ہے اس سے بھی زیادہ اس لیے کہ یہ سب کچھ پیوٹن کو انہیں غلط ثابت کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ مزید برآں پیوٹن شاید یہ بھی فرض کر لیں کہ نیٹو فوری طور پر جوہری ہتھیاروں کا سہارا لے کر کسی حملے پر ردعمل ظاہر نہیں کرے گا۔ یقینا پیوٹن اس طرح نیٹو پر دباؤ ڈالتا ہے کہ وہ اسے غلط ثابت کرے۔
اس طرح یہ عمل ایٹمی جنگ کی طرف بڑھتا ہے۔ ہر فریق یہ ثابت کرنے پر مجبور ہے کہ اس کے مخالفین کے سٹریٹیجک حسابات غلط ہیں۔ وہ اپنے آپ کو ایک ایسے جال میں پھنسا رہے ہیں جس سے وہ بچ نہیں سکتے۔
بڑھتی ہوئی جنگ میں یورپی سامراجی بڑے کھلاڑی ہیں۔ جرمنی جس نے یوکرین کو امریکہ کے علاوہ کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ ہتھیار فراہم کیے ہیں، جمعرات کو کیف کے لیے مزید 500 ملین یورو کے فوجی سازوسامان کا اعلان کیا۔ ایک گمنام سفارت کار نے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے میکرون کے یوکرین میں فوج بھیجنے کے آنے والے فیصلے کے بارے میں تبصرہ کیا کہ 'انتظامات بہت آگے کے مرحلے میں ہیں اور ہم اگلے ہفتے کچھ اسکی توقع کر سکتے ہیں۔'
سامراجی اپنے عالمی عزائم کے حصول کے لیے جنگ پر ہر چیز کو داؤ پر لگا رہے ہیں تاکہ وہ اپنے پیچیدہ داخلی سماجی اور سیاسی بحرانوں سے نکلنے کی کوشش کریں۔ انہوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کی نسل کشی میں ملوث ہونے کے لیے کس بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔
جیسا کہ ورلڈ سوشلسٹ ویب سائٹ کے انٹرنیشنل ایڈیٹوریل بورڈ کے چیئرمین ڈیوڈ نارتھ نے کہا ہے کہ 'بائیڈن انتظامیہ نے روس پر براہ راست حملوں کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے لیکن پیوٹن کی نیٹو کے خلاف جوابی حملہ کرنے کا چیلنج دوگنا ہو جاتا ہے۔ شاہد یہ ممکن ہے کہ وہ کرے گا اور پھر یہ صرف وقت کی بات ہے اس سے پہلے کہ تنازعہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال تک بڑھ جائے۔'
ڈیوڈ نارتھ نے مشاہدہ کیا کہ واشنگٹن اور یوروپ کے دارالحکومتوں میں 'مکمل لاپرواہی' کا موڈ اس 'فریب' نقط نظر سے کارفرما ہے کہ پیوٹن کی رجعتی قوم پرست حکومت نیٹو کے حملے کی جوابی کارروائی نہیں کرے گی۔ جنگ شروع ہونے کے بعد سے بائیڈن، جرمن چانسلر سکولز، میکرون اور برطانوی وزیر اعظم سنک کے تباہ کن غلط حسابات کے سلسلے میں یہ تازہ ترین ہے۔
جنگ کے آغاز میں روس کے خلاف جو پابندیاں لگائی گئی تھیں ان سے اس کی معیشت کو تباہ کرنا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ عظیم یوکرائنی 'جوابی کارروائی' جسے مغربی میڈیا نے جنگ میں ایک اہم موڑ قرار دیا ایک شکست سے دوچار ہوئی۔ اس نے سامراجی طاقتوں کی طرف سے ایک اندازے کے مطابق 500,000 یوکرائنی جانوں کو توپ کے چارے کے طور پر استمال کرتے ہوئے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔
بریٹ سٹیفنز جس نے ابھی اسی ہفتے نیویارک ٹائمز کا ایک کالم لکھا تھا جس میں یہ دلیل دی گئی تھی کہ اگر وہ جنگوں میں 'اخلاقی طور پر سمجھوتہ کرنے والی فتوحات' حاصل کرتے ہیں تو وہ اپنے اعمال پر تمام روکاٹیں ہٹاتے ہیں اور اس نے پچھلے سال لکھا تھا کہ یوکرین کی جوابی کارروائی روس کے کھیل کے لیے 'اختتام' ثابت ہوگی۔، جس میں 'کرش اور بلاشبہ شکست ' کا باعث ہوگی۔
روس کے ساتھ جنگ میں بے لگام جارحیت اور بربریت کے لیے وسیع اتفاق رائے ایک ایسے حکمران طبقے کی نشاندہی کرتا ہے جو اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھا ہے۔
سرد جنگ کے دوران امریکی سامراج نے جوہری جنگ کی تباہی کو متحرک کرنے سے بچنے کے لیے اپنے اقدامات پر کچھ حدود کو تسلیم کیا تھا۔ جنرل ڈگلس میک آرتھر کو کوریا کی جنگ کے دوران چینی فوجیوں کے خلاف جوہری بم کے استعمال کی وکالت کرنے پر برطرف کر دیا گیا تھا۔ 1962 کے کیوبا کے میزائل بحران کے دوران اعلیٰ فوجی کمانڈروں کی کیوبا پر بمباری کرنے کی خواہش کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ لیکن اب انہیں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے داخلی اور عالمی بحرانوں کا سامنا ہے جس کے لیے ان کے پاس کوئی ترقی پسند جواب نہیں ہے، سرمایہ دار طبقے نے ایک ایسا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو ہمہ گیر جنگ کی طرف لے جاتا ہے۔
نارتھ فیصلہ کن سوال کو یوں پیش کرتا ہے انکا اب سب سے بڑا اور سب سے زیادہ تباہ کن غلط حساب کتاب سامنے آتا ہے کہ نیٹو روسی سرزمین پر حملے کر سکتا ہے اس لیے کہ اُسے روس کی جانب سے جوابی حملوں کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ اگر اسکے برعکس ہو گا بائیڈن، شولز، میکرون، سنک یا سٹارمر غلط ثابت ہوں گے تو پھر کیا جواب دیں گے؟
شمالی امریکہ یا یورپ میں سامراجی لیڈروں میں سے کوئی بھی عوام کو یہ بتانے کی ذمہ داری محسوس نہیں کرتا کہ وہ وال سٹریٹ اور فرینکفرٹ، پیرس اور لندن کی اسٹاک ایکسچینج کے لیے مزید کتنی جانیں قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔ بائیڈن کے فیصلے سے قبل شائع ہونے والے نیویارک ٹائمز کے ایک مضمون میں ایک غیر معمولی حوالے سے ڈیوڈ سینگر نے لکھا:
لیکن اگر مسٹر بائیڈن اپنا راستہ تبدیل کرتے ہیں تو حکام تسلیم کرتے ہیں کہ وہ غالباً کبھی اس کا اعلان نہیں کریں گے اور اس کے بجائے امریکی توپ خانے کے گولے اور میزائل روسی فوجی اہداف کو نشانہ بنانا شروع کر دیں گے۔
سامراجیوں کی پالیسی کے پاگل پن کی جڑیں خصوصی طور پر معروضی ہیں۔ عالمی سرمایہ داری کے تاریخی دیوالیہ پن سے جنم لیتے ہوئے تضادات سے دوچار ہے جس کا حکمران اشرافیہ کے پاس کوئی بھی ترقی پسند حل موجود نہیں ہے وہ دنیا کی دوبارہ عالمی تقسیم کی راہ کا انتخاب کرتا ہے اور اس کے لیے ایک حصے کے طور پر روس کے ساتھ جنگ کو بڑے پیمانے پر بڑھانے پر مجبور ہیں۔ 20 ویں صدی میں پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے سامراجی دیوانوں نے ہر ملک کے حکمران طبقے کے قومی اقتصادی اور جیوسٹریٹیجک مفادات اور معاشی زندگی کے عالمی کردار کے درمیان تصادم پر قابو پانے کے لیے انسانیت کو بے مثال بربریت میں جھونک دیا۔
وہی طبقاتی مفادات جنہوں نے ہولوکاسٹ کے دوران مغربی محاذ کی خندقوں اور نازیوں کے گیس چیمبروں میں لاکھوں افراد کو موت کے گھاٹ اتارا دیا تھا آج ایک بار پھر سامراجی طاقتیں اپنے استصالی اور خانخوار عالمی عزائم کی خاطر اس مرتبہ ایٹمی تنازع میں انسانیت کی بقا کو خطرے میں ڈالنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ یہ مفادات یوریشین لینڈ ماس پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی غرض سے روس کو اس کے قدرتی وسائل کو لوٹنے کے لیے نیم کالونی کا درجہ دینا چاہتے ہیں ایران کے خلاف جنگ کی تیاریوں کے حصے کے طور پر فلسطین کے مسئلے کے 'حتمی حل' کی اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں اور چین کے ساتھ جنگ کی منزلیں طے کر رہے ہیں۔۔
روس کے خلاف سامراجی جنگ کے مسلسل بڑھنے کو جنگ اور اسے پیدا کرنے والے سرمایہ دارانہ منافع بخش نظام کے خلاف محنت کش طبقے کی آزاد سیاسی تحریک کے لیے جدوجہد کے ذریعے ہی روکا جانا چاہیے۔
جیسا کہ ورلڈ سوشلسٹ ویب سائٹ نے سال کے آغاز میں لکھا:
اگر یہ تاریخی طور پر تصدیق شدہ حقیقت نہ ہوتی کہ سرمایہ داری کو تباہی کی طرف لے جانے والے تضادات اس کے خاتمے اور سماج کی ایک نئی اور ترقی پسند یعنی سوشلسٹ، بنیاد پر تنظیم نو کے حالات کو بھی حرکت میں لاتے تو انسانیت کے امکانات تاریک ہوتے۔ اس تنظیم نو کی صلاحیت کی جڑیں محنت کش طبقے کے مقصد میں ہے۔ طبقاتی جدوجہد وہ ذریعہ ہے جس کے ذریعے سوشلسٹ تنظیم نو کے معروضی امکان کو عملی طور پر حاصل کیا جاتا ہے۔
اس تجزیے کی درستگی غزہ کی نسل کشی کے خلاف تیزی سے بڑھتی ہوئی اسکی مخالفت سے ظاہر ہوئی ہے جس میں کیلیفورنیا یونیورسٹی میں نسل کشی مخالف مظاہرین کے خلاف پولیس کے کریک ڈاؤن کے خلاف احتجاج کے لیے تعلیمی کارکنوں کی جاری ہڑتال بھی شامل ہے۔
بین الاقوامی سطح پر مزدوروں کو درپیش فوری سیاسی کام یہ ہے کہ وہ سرمایہ دارانہ اسٹریٹی کے اقدامات اور ان کی ملازمتوں، اجرتوں اور شرائط پر حملوں کے خلاف اپنی جدوجہد کو یونیورسٹی کے کیمپس اور جنگ مخالف مظاہروں کے ساتھ یکجا ہوتے ہوئے جوڑنا ہے۔
یہ محنت کش طبقہ ہے جو معاشرے کی تمام دولت پیدا کرتا ہے جو اسلحے کی پیداوار کو بند کر کے اور معاشرے کی سوشلسٹ تبدیلی کی سیاسی جدوجہد میں روس اور یوکرین سمیت تمام ممالک میں محنت کشوں کو متحد کر کے سامراجی جنگی مشین کو اپنے راستے پر گامزن کر سکتا ہے اور اسے اپنا تاریخی فریضہ ادا کرتے ہوئے اسے ضرور روکنا چاہیے۔
جو اب سب کچھ چوتھی انٹرنیشنل کی بین الاقوامی کمیٹی کی تعمیر پر منحصر ہے اور یہ انقلابی سوشلسٹ سیاسی قیادت محنت کش طبقے میں سماجی مخالفت کی نشوونما کو سوشلزم کے لیے ایک شعوری تحریک کی شکل دینے کے لیے لڑ رہی ہے۔