اُردُو
Perspective

نیٹو روس یوکرین جنگ میں براہ راست مداخلت کی تیاری کر رہا ہے۔

یہ28 مئی 2024 میں انگریزی میں شائع ہونے والے اس  'NATO prepares direct intervention into Russia-Ukraine war' تناظر کا اردو ترجمہ ہے۔

جیسا کہ یوکرین کی نیٹو کی حمایت یافتہ حکومت کو روس کے ساتھ اپنی جنگ میں شکست کا سامنا ہیاس پس منظر میں نیٹو طاقتیں یوکرین میں بڑے پیمانے پر فوجی کشیدگی کی تیاریوں کو تیز کر رہی ہیں۔ جسکا نتیجہ بلغاریہ کے دارالحکومت صوفیہ میں سموار کو منعقدہ نیٹو کی پارلیمانی اسمبلی کا اجلاس تھا۔

صوفیہ میں اجلاس کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ 'روس کو یوکرین میں سٹریٹجک شکست کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور کرنا چاہیے۔ اس نے 'واضح طور پر اپنی اس حکمت عملی کے مقصد کو بیان اور اجاگر کیا کہ یوکرین کو وہ تمام چیزیں فراہم کی جائیں جن کی اسے ضرورت ہے جو جتنی جلدی ممکن ہو اور چاہے اسے اس جنگ کو جیتنے میں جتنی دیر کیوں نہ لگے۔'

میرین کور بیس کیمپ پینڈلٹن میں امریکی میرین ہیمارس سسٹم۔ (کریڈٹ: یو ایس میرینز) [تصویر: یو ایس میرینز] [Photo: US Marines]

اگر نیٹو روس کو 'اسٹرٹیجک شکست' دینا چاہتا ہے اس کی فوج کو زبردست دھچکا لگانا چاہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ ماسکو میں حکومت کی تبدیلی کے سوا اور کوئی چارا نہیں ہے تو اسے پھر جنگ میں نیٹو افواج کے براہ راست داخلے کی ضرورت ہوگی۔ کیونکہ یوکرین کی فوج کے خون کا آخری قطر بھی بہہ چکا ہے، جس نے ڈیڑھ ملین سے زیادہ جوانوں کو کھو دیا ہے اور وہ تمام محاذ پر پسپا ہے۔ 

صوفیہ کے بیان میں 'روس میں جائز اہداف پر حملہ کرنے کے لیے نیٹو اتحادیوں کی طرف سے فراہم کردہ ہتھیاروں کے استعمال پر کچھ پابندیاں ہٹانے کی وکالت بھی کی گئی۔' یوکرین کے اب تک روس میں یوکرائنی ساختہ میزائلوں کے حملے کے اہداف زیادہ تر قریبی شہر بیلگوروڈ تک محدود تھے جو کہ اس سے زیادہ کے آگے کے حملوں کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔ لیکن اب صوفیہ میٹنگ نے یوکرین کو نیٹو کی طرف سے فراہم کردہ طویل فاصلے تک مار کرنے والے سٹروم شیڈو، سکیلپ، ٹورس اور آٹیککمز میزائلوں کو روس کے اندر دور تک شہروں پر حملہ کرنے کی اجازت دی ہے۔

بین الاقوامی سطح پر مزدوروں اور نوجوانوں کو خبردار ہونا جانا چاہیے کہ نیٹو جوہری ہتھیاروں سے لیس بڑی طاقتوں کے درمیان خطرناک حد تک جنگ کی جانب لاپرواہی میں اضافہ کر رہا ہے۔

برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون کے کہنے کے بعد کہ یوکرین روس پر بمباری کے لیے برٹش سٹروم شیڈو میزائل کا استعمال کر سکتا ہے، روسی وزارت خارجہ نے برطانوی سفیر نائیجل کیسی کو طلب کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اس صورت میں روس جوابی کارروائی کے طور پر برطانیہ میں اہداف کو نشانہ بنائے گا۔ بہر حال کیمرون کی دھمکیوں کی بازگشت کے دوران نیٹو واضح کر رہا ہے کہ وہ روس کے ساتھ کھلی جنگ کا خطرہ مول لینے کے لیے تیار ہے۔

گزشتہ رات میسبرگ میں ایک سربراہی اجلاس میں جرمن چانسلر اولاف شولز اور فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون دونوں نے یوکرین کو روس پر نیٹو میزائلوں سے بمباری کرنے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا۔ میکرون نے کہا کہ 'اگر ہم ان سے(یوکرین) کہیں کہ وہ وہاں نشانہ نہیں مار سکتے جہاں سے ان پر میزائل فائر کیے جاتے ہیں تو درحقیقت ہم یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ہم آپ کو ہتھیار دیتے ہیں لیکن آپ اپنا دفاع نہیں کر سکتے۔'

یہ اس اعلان کے دوران سامنے آیا ہے کہ جب فن لینڈ، پولینڈ اور بالٹک ریاستیں روسی فوجی ڈرون سے لڑنے کی تیاری کے لیے روسی سرحد کے ساتھ ایک 'ڈرون دیوار' کو مضبوط کر رہی ہیں۔

ہفتے کے روز پولینڈ کے وزیر خارجہ رادوسلو سکورسکی نے اخبار گارڈین کو بتایا کہ امریکی اور روسی حکام جوہری بموں کے ممکنہ استعمال کے بارے میں بات کر رہے ہیں اور 'امریکیوں نے روسیوں سے کہا ہے کہ اگر آپ جوہری حملہ کریں گے چاہے اس سے کسی کی بھی جان نہ جائے ہم تمارے یوکرین میں تمام اہداف کو روایتی ہتھیاروں سے نشانہ بنائیں گے اور ہم ان سب کو تباہ کر دیں گے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک معتبر خطرہ ہے۔'

جبکہ سکورسکی نے ایک ایسے منظر نامے کا ذکر کیا جس میں کریملن جوہری ہتھیاروں کا استعمال کرنے والا پہلا ملک ہو گا ان کے ریمارکس سے پتہ چلتا ہے کہ نیٹو کے پاس ایسا کرنے کی زیادہ ترغیب ہے۔ درحقیقت اس نے تسلیم کیا ہے کہ روس کے ساتھ روایتی جنگ میں یورپ کو نقصان پہنچے گا جس کی فوجیں اب دو سال کی جنگ کے بھاری ہتھیاروں سے لیس سابق فوجیوں پر مشتمل ہیں۔

سکورسکی نے کہا کہ 1991 میں سوویت یونین کی سٹالنسٹ تحلیل کے بعد 'یورپ نے صرف اپنے کو غیر مسلح نہیں کیا بلکہ دفاعی میدان میں صنعتی طور پر ختم کر دیا ہے تجربہ اور واقیات ہمیں یہ سکھتا ہے کہ یہ ایک غلطی تھی۔ یہ ظاہر ہے کہ یورپ پیچھے ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 'ہم نے ہائی ویلیو، ہائی ٹیک پلیٹ فارمز اور ہتھیاروں پر اپنی توجہ مرکوز کی۔ اب ہم دوبارہ احساس کر رہے ہیں کہ درحقیقت آپ کو اب لاکھوں گولوں کی ضرورت ہے اور آپ کو کم ٹیک چیزوں کی بھی بڑی مقدار کی ضرورت ہے۔ اس سے یہ خطرہ بڑھتا ہے کہ نیٹو اس نسبتاً کمزوری کا مقابلہ کرنے کے لیے جوہری ہتھیاروں کو جنگ میں استعمال کرنے کا فیصلہ کر سکتا ہے۔

روس کے خلاف نیٹو کے جنگی منصوبے عالمی سامراجی ایجنڈے سے جڑے ہوئے ہیں۔ صوفیہ میں نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ نے یوکرین جنگ کے دوران چین کی روس کے ساتھ تجارت کرنے پر شدید نقط چینی کی۔ صوفیہ کے اعلامیے میں 'روس کی جنگ میں بیلاروسی، ایرانی اور شمالی کوریا کی حکومتوں کی طرف سے فراہم کی جانے والی فوجی مدد کی مذمت' کا مطالبہ کیا گیا یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ 'یوکرین کے لیے امداد جو ایک چھوٹی سرمایہ کاری کے برابر ہے بمقابل یوکرین کی فتح سے متعلق اسٹریٹجک فوائد کے حصول سے۔'

یعنی نیٹو صرف روس کے تیل، گیس اور اہم اسٹریٹجک معدنیات کے وسیع ذخائر تک رسائی حاصل کرنے تک اپنی امید کو محدود نہیں رکھتا یعنی اگر وہ روس کے 'اسٹریٹجک شکست' کا سودا کر بھی لے اور ماسکو میں کٹھ پتلی حکومت قائم کرے۔ اس کے لیے روس کے خلاف کشیدگی مشرقی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور ایران میں جنگ سے جڑی ہوئی ہے۔ غزہ میں اس کی نسل کشی نیٹو کی اسرائیل کی پشت پناہی میں یہ سب سے تیز شکل اختیار کرتے ہوئے اسکا ایک کھلا اظہار ہے۔

ماسکو نے نیٹو کی مذمت کرتے ہوئے اسٹولٹنبرگ کے تبصروں کا جواب دیا۔ کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا کہ نیٹو فوجی بیان بازی سے چھیڑ چھاڑ کر رہا ہے اور فوجی جنون میں آ رہا ہے۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا نیٹو روس کے ساتھ براہ راست تصادم کے قریب آرہے ہیں انہوں نے جواب دیا کہ'وہ قریب نہیں آ رہے ہیں بلکہ وہ داخل ہو چکے ہیں۔'

تاہم نیٹو کی جنگ کی جانب شدت یوکرین پر روسی سرمایہ دارانہ حکومت کے رجعتی حملے کے تحت قوم پرست حکمت عملی کے دیوالیہ پن کو بے نقاب کر رہی ہے۔ روس کی نیٹو کو مذاکرات کی میز پر لانے اور اسے روس کے سیکورٹی خدشات کو تسلیم کرنے پر مجبور کرنے کے لیے فوجی طاقت کو استعمال کرنے کی کریملن کی کوشش ناکام ہو گئی ہے۔ روس کو اب پورے نیٹو اتحاد کے ساتھ جنگ ​​کے امکانات کا سامنا ہے جو ممکنہ طور پر جوہری تصادم میں بدل جائے گی۔

اس صورتحال میں سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ مزدوروں اور نوجوانوں کی بڑی تعداد اس خطرے کی تیز رفتاری سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ نیٹو کی حکومتیں اس طرح کی پالیسیوں کے تباہ کن مضمرات کی وضاحت کیے بغیر 'یوکرین کے لیے امداد' اور 'یورپی جنگی معیشت' کے بارے میں جملے بولتے ہوئے، لوگوں کی پشت پر انہیں خبر کیے بغیر اس گشیدگی میں مزید اضافے کی سازش کر رہی ہیں۔

فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون کی یوکرین میں روس سے لڑنے کے لیے نیٹو فوجی بھیجنے کی تجویز کی یورپ میں زبردست مخالفت ہو رہی ہے۔ پولز سے معلوم ہوا ہے کہ 68 فیصد فرانسیسی، 80 فیصد جرمن اور 90 فیصد پولش اس پالیسی کی مخالفت کرتے ہیں۔ یہ مخالفت بلاشبہ زیادہ اور زیادہ فعال ہو گی اگر محنت کشوں اور نوجوانوں کی بڑی تعداد اس جنگ کے وسیع پیمانے پر آگاہ ہو جائے جسے نیٹو شروع کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔

مزدوروں اور نوجوانوں کو ہوشیار رہنا چاہیے اور عوام سے اس خطرے کو چھپانے کے لیے عسکری حکومتوں اور میڈیا کی جنگی پروپیگنڈے کی سازش کو بے نقاب کرنا چاہیے۔ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر قومی حکمت عملی کے ذریعے جنگ کو روکنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ یورپ میں تیسری عالمی جنگ کو ٹالنے کا انحصار صرف محنت کش طبقے میں ایک بین الاقوامی، سوشلسٹ جنگ مخالف تحریک کی تعمیر پر ہے۔

غزہ میں نیٹو کی حمایت یافتہ اسرائیلی نسل کشی کے خلاف عالمی سطح پر مظاہروں کے ساتھ ساتھ روس کے خلاف نیٹو کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں سامنے آ رہی ہیں۔ اس جدوجہد میں شامل نوجوانوں اور مزدوروں کو اس سوچ اور سمجھ سے مسلح ہونا چاہیے کہ غزہ کی نسل کشی اور روس کے خلاف نیٹو کی کارروائیاں دونوں سامراجی طاقتوں کی جانب سے جنگ کے ذریعے عالمی تسلط کے حصول کی کوک سے جنم لیتی ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ محنت کش طبقے کو سامراجی جنگ کی عالمی شدت کے خلاف متحرک کیا جائے اور جنگ کے خلاف جدوجہد کو ان سماجی اور معاشی تقاضوں کے ساتھ جوڑ دیا جائے جنہوں نے پوری دنیا میں محنت کشوں کو جدوجہد پر اکسایا ہے۔ جنگ کے خلاف لڑائی سرمایہ دارانہ سماجی نظام کو ختم کرنے کی لڑائی سے الگ نہیں ہے جو جنگ کی 

 وجہ ہے اور اسے سوشلزم سے بدلنا ہے۔

Loading