اُردُو
Perspective

محنت کش طبقہ کی سرمایہ دارانہ بربریت کے خلاف جدوجہد اور سوشلسٹ انقلاب کی عالمی پارٹی کی تعمیر (حصہ سوئم)

یہ اس تناظر کا تیسرے حصے کا اردو ترجمہ ہے 'The working class, the fight against capitalist barbarism, and the building of the World Party of Socialist Revolution (Part Three)'  جو 5 جنوری 2024 کو انگریزی میں شائع ہوا۔

انتہائی دائیں بازو کی بحالی اور جمہوریت کی عالمی ٹوٹ پھوٹ

1. جس طرح غزہ پر سامراجی حمایت یافتہ اسرائیلی حملے میں نسل کشی کو کھلے عام پالیسی کے ایک آلے کے طور پر اپنایا جا رہا ہے اور اس وبائی مرض کے خلاف حکمران طبقے کے ردعمل میں بڑے پیمانے پر موت کو معمول بنایا گیا ہے اسی طرح فاشسٹ اور آمرانہ تحریکیں دنیا بھر میں ابھر رہی ہیں جو مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں کا حصہ ہیں۔ متوسط ​​طبقے اور جعلی بائیں بازو کی تنظیموں کی جانب سے شدید ہوتے ہوئے معاشی بحران اور گرتے ہوئے معیارِ زندگی کے بارے میں حقیقی طور پر سرمایہ دارانہ مخالف ردعمل کی عدم موجودگی میں انتہائی دائیں بازو کی جانب سے سیاسی فائدے حاصل کیے جا رہے ہیں۔

2. نئے سال 2024 کے ابتدائی دنوں میں جمہوری طرز حکمرانی کی خطرناک پوزیشن پر بورژوا میڈیا میں تبصروں کی بوچھاڑ کچھ اس طرح کی جا رہی ہے: 'دنیا بھر میں جمہوریت کے لیے ایک میک یا بریک سال،' (ٹائم میگزین)؛ '2024 ووٹ کی پرچی پر عالمی جمہوریت کے ساتھ انتخابات کی لہر لاتا ہے' (واشنگٹن پوسٹ)؛ '2024 جمہوریت کے لیے بہت مشکل سال ہو سکتا ہے' (نیو یارک)؛ 'کیوں 2024 ابھی تک جمہوریت کے لیے سب سے بڑا سال ہو سکتا ہے' (اکانومسٹ)؛ اور کیا 2024 میں جمہوریت زندہ رہ سکتی ہے؟ (فنانشل ٹائمز)

3. تبصرے بتاتے ہیں کہ 2024 میں دنیا بھر میں 70 سے 80 ملکوں میں الگ الگ انتخابات ہوں گے جن میں ایک اندازے کے مطابق 4.2 بلین لوگ یا عالمی آبادی کا نصف سے زیادہ حصہ لیں گے۔ اس میں بھارت، یورپی یونین، برطانیہ، میکسیکو، انڈونیشیا، بنگلہ دیش، جنوبی افریقہ اور درجنوں دیگر ممالک کے انتخابات کے ساتھ ساتھ امریکہ میں صدارتی انتخابات بھی شامل ہیں۔

4. ان انتخابات کے درمیان بورژوا جمہوری اداروں کا فریم ورک ٹوٹ رہا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ لکھتی ہے، 'معاشرے کے بعد معاشروں میں غیر لبرل اقدار اور ان کو اپنانے والے سیاست دان مضبوط ہو رہے ہیں۔' فنانشل ٹائمز لکھتا ہے'متعدد منتخب حکومتیں جمہوری منصوبے کے بنیادی اصولوں کو کمزور کرنے پر تلی ہوئی ہیں پریس کی آزادی سے لے کر عدلیہ جیسے اداروں کی آزادی تک اپوزیشن جماعتوں کی حکمران اسٹیبلشمنٹ کے خلاف منصفانہ مقابلہ کرنے کی صلاحیت تک 'سب پستی کی حالت میں ہیں'سویڈن کے بین الاقوامی انسٹی ٹیوٹ برائے جمہوریت اور انتخابی معاونت کی طرف سے گلوبل اسٹیٹ آف ڈیموکریسی انیشی ایٹو نے بتایا ہے کہ 2023 مسلسل چھٹا سال تھا جس میں تمام ممالک میں سے نصف میں جمہوریت میں کمی واقع ہوئی جو کہ 1975 میں شروع ہونے کے بعد سے سب سے طویل پسپائی ہے۔'

5. تاہم سرمایہ دارانہ میڈیا میں کہیں بھی اس 'جمہوریت کے بحران' کے تحت سیاسی عمل کا کوئی تاریخی طور پر باخبر تجزیہ نہیں ہے کہ وہ آمریت اور جابررانہ طرز حکمرانی کی جانب بڑھنے کے پیچھے بنیادی سماجی عوامل کا جائزہ لیں۔

6. انتہائی دائیں بازو کا مضبوط ہونا ایک عالمگیر واقعہ ہے۔ امریکہ میں اس سال انتخابات 6 جنوری 2021 کی فاشسٹ بغاوت کے صرف تین سال بعد ہوں گے۔ ٹرمپ ریپبلکن پارٹی کی طرف سے نامزدگی کے اہم دعویدار فی الحال بائیڈن کے ساتھ کسی بھی مقابلے میں انتخابات میں آگے ہیں۔ جون میں ہونے والے یورپی یونین کے انتخابات میں موجودہ پولز کے مطابق انتہائی دائیں بازو کا آئیڈینٹیٹی اینڈ ڈیموکریسی گروپ جس میں فرانس میں میرین لی پین کی رسمبلمنٹ نیشنل اور فاشسٹک الٹرنیٹیو فار جرمنی (اے ایف ڈی) شامل ہیں، کافی نشستیں حاصل کر کے اسے تیسرے یا چوتھے نمبر پر لے جائیں گے۔ جو یورپی یونین کی پارلیمنٹ میں سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھریں گے۔

ارجنٹائن کے منتخب صدر جیویر میلی اتوار 13 اگست 2023 کو بیونس آئرس، ارجنٹائن میں پرائمری انتخابات کے دوران پولنگ سٹیشنز بند ہونے کے بعد اپنی مہم کے ہیڈ کوارٹر میں خطاب کر رہے ہیں۔ [اے پی فوٹو] نتاچا پسرینکو [AP Photo/Natacha Pisarenko]

7. پچھلے سال نومبر میں ارجنٹائن میں فاشسٹ ٹی وی شخصیت جیویر میلی کا انتخاب دیکھا گیا اور نیدرلینڈز میں گیئرٹ وائلڈرز کی مسلم مخالف پارٹی فار فریڈم (پی وی وی) کی بلندی جو دسمبر میں ہونے والے انتخابات کے بعد نیدرلینڈز کی سیاست میں سب سے مضبوط طاقت بن گئی۔ اٹلی کی وزیر اعظم جارجیا میلونی ہیں جو 2022 میں منتخب ہوئی ہیں جن کا سیاسی شجرہ براہ راست مسولینی تک جاتا ہے۔ ہندوستان میں وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی فاشسٹ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دسمبر میں ہونے والے ریاستی انتخابات میں کامیابی کے بعد تیسری بار جیتنے کی امید ہے۔

8. سیاسی طور پر فاشسٹ پارٹیوں اور افراد کا عروج حکمران طبقے کے دائیں جانب عالمگیر تبدیلی کے نتیجے میں ابھر کر سامنے آیا ہے نہ کہ نیچے سے ابھرنے والی عوامی تحریکوں کے نتیجے میں۔ سوشل ڈیموکریٹک، ڈیموکریٹک، لیبر، یا کنزرویٹو جو بھی ان کا لیبل ہے ان اسٹیبلشمنٹ پارٹیوں کی پالیسیاں بنیادی طور پر ایک جیسی ہیں: سماجی اخراجات میں بڑے پیمانے پر کٹوتیاں اور فوجی اخراجات میں اضافہ ساتھ ہی یوکرین میں روس کے خلاف امریکہ-نیٹو جنگ کی حمایت اور غزہ میں اسرائیلی نسل کشی ان سب میں مشترکہ ہے۔

9. اس کے ساتھ ساتھ قائم سرمایہ دار پارٹیاں تیزی سے فاشسٹوں کے پروگرام اور پالیسیوں کو اپنا رہی ہیں۔ سال کا اختتام یورپی یونین کے رکن ممالک کے نمائندوں اور یورپی پارلیمنٹ کے 'کامن یورپی اسائلم سسٹم' (سی ای اے ایس) کو اپنانے کے ساتھ ہوا جو پناہ کے حق کو ختم کرتا ہے فورٹریس یورپ میں توسیع کرتا ہے اور بڑے پیمانے پر ملک بدری اور پناہ گزینوں کی حراستی کیمپوں تک محدود کر دیا گیا ہے جہاں انہیں ایک انتہائی بری کیفیت میں رکھا جاتا ہے۔

10. دائیں طرف کی اس تبدیلی میں برائے نام 'بائیں' کی جماعتیں شامل ہیں: یونان میں سریزا جو 2015 میں آئی ایم ایف کی حمایت یافتہ اسٹریٹی کو ختم کرنے کے وعدوں کے ساتھ برسراقتدار آئی اور اپنے پیشرو سے بھی گہرے اسٹریٹی کے اقدامات کو نافذ کرنے کے لیے آگے بڑھی۔ برطانیہ میں کوربینزم جس نے لیبر پارٹی میں اپوزیشن کو دم چھلا کے طور پر آگے بڑھانے کے لیے کام کیا جس کا نتیجہ کیئر اسٹارمر کے عروج اور کوربن کی پارٹی سے بے دخلی پر نکلا۔ جرمنی میں بائیں بازو کی پارٹی جس کی دائیں بازو کی پالیسیوں کی وجہ سے مزدوروں اور نوجوانوں کی حمایت میں کمی آئی ہے۔

اولیگارکی اور سماجی عدم مساوات

11. ان سیاسی عملوں کی بنیادیں زیادہ تر بنیادی سماجی عمل ہیں۔ پہلی عالمی جنگ اور دوسری عالمی جنگ کے درمیان بورژوا جمہوریت کے بحران کی وضاحت کرتے ہوئے ٹراٹسکی نے جمہوریت کا موازنہ 'قومی یا سماجی جدوجہد سے بھری ہوئی دھاروں سے تحفظ کے لیے حفاظتی سوئچز اور سرکٹ بریکرز کے نظام سے کیا۔ بین الاقوامی تضادات جو بہت زیادہ چارج کیے جاتے ہیں جمہوریت کے حفاظتی سوئچ یا تو جل جاتے ہیں یا پھٹ جاتے ہیں۔ آمریت کا شارٹ سرکٹ یہی ظاہر کرتا ہے۔

12. بین الاقوامی تضادات جو جمہوریت کے حفاظتی سوئچ کو شاٹ سرکٹ کرتے ہیں وہی تضادات ہیں جو پھیلتے ہوئے عالمی تنازعات اور خارجہ پالیسی کے ایک آلہ کے طور پر نسل کشی کو معمول پر لانے کی بنیاد رکھتے ہیں۔ جیسا کہ لینن نے وضاحت کی کہ سامراجیت 'ہر جگہ اور ہر سطح پر' ہے۔ مالیاتی سرمایہ اپنی خارجہ اور ملکی پالیسی دونوں میں 'جمہوریت کے لیے نہیں بلکہ آمریت کے لیے کوشش کرتا ہے۔' تمام معاشرے کو لامتناہی جنگ کی پالیسی کے تابع کرنے کا مطلب نہ صرف سماجی وسائل کو لوٹتے ہوئے فوجی بجٹ کی مالی اعانت کے لیے منتقل کرنا ہے بلکہ داخلی سطح پر جنگ مخالف مخالفت کو دبانے کے لیے اور بھی براہ راست اقدام کرنا ہے۔

13. جمہوری طرز حکمرانی کو نقصان پہنچانے والے لازمی طبقاتی تضادات سب سے بڑھ کر سماجی عدم مساوات کی انتہائی ترقی میں ظاہر ہوتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ معاشرہ ایک اولیگارشی کی شکل اختیار کر چکا ہے جس میں تمام معاشی، سماجی اور سیاسی زندگی ایک چھوٹی اشرافیہ کے زیر کنٹرول ہے۔ اسکی ایک اور تشبیہ اس طرح دی جا سکتی ہے کہ دولت کا انتہائی ارتکاز ایک بے قابو ٹیومر کی طرح میٹاسٹاسائز کر رہا ہے جو ریاست کے ہر ادارے عدالتوں اور میڈیا کو متاثر کر رہا ہے۔

14. عالمی سطح پر آکسفیم کے مطابق امیر ترین 1 فیصد آبادی اب دنیا کی تقریباً نصف دولت کے مالک ہیں جب کہ غریب ترین 50 فیصد کے پاس صرف 0.75 فیصد حصہ ہے۔ صرف 81 ارب پتیوں کے پاس دنیا کی نصف آبادی سے زیادہ دولت ہے۔

15. تھامس پیکیٹی، ایمانوئیل سیز اور گیبریل زوکمین کی طرف سے تیار کردہ عالمی عدم مساوات کا ڈیٹا بیس (ڈبلیو آئی ڈی) بتاتا ہے کہ سب سے امیر ترین 0.01 فیصد آبادی (آج تقریباً 800,000 افراد) کی ملکیت 1995 میں 8 فیصد سے بڑھ کر 12 فیصد ہو گئی ہے۔ آج اوپر والے 0.01 فیصد اور نیچے کے 50 فیصد کے درمیان دولت کا فرق آج 2008 کے مقابلے میں 50 فیصد زیادہ ہے۔ آمدنی میں عدم مساوات بھی بڑھ رہی ہے۔ دنیا کی سب سے امیر ترین 10 فیصد آبادی پوری عالمی آمدنی کا نصف (52 فیصد) سے زیادہ حصہ لیتی ہے جب کہ نچلا حصہ صرف 8.5 فیصد حصہ لیتا ہے۔

16. ڈبلیو آئی ڈی کی 'عالمی عدم مساوات کی تازہ ترین اپ ڈیٹ رپورٹ 2022،' جو کہ دستیاب ہے بتاتی ہے کہ

عالمی ارب پتیوں نے پچھلی کئی دہائیوں کے دوران عالمی دولت میں غیر متناسب حصہ حاصل کیا ہے: سب سے اوپر 1 فی صد نے 1990 کی دہائی کے وسط سے جمع ہونے والی تمام اضافی دولت کا 38 فیصد حاصل کیا جب کہ نیچے کے 50 فیصد نے اس میں سے صرف 2 فیصد حصے تک رسائی حاصل کی۔

 یہ عدم مساوات دولت کی تقسیم کے اوپری اور نیچے والے طبقات کے درمیان شرح نمو میں سنگین عدم مساوات سے پیدا ہوتی ہے۔ 1995 سے لے کر اب تک دنیا کے امیر ترین افراد کی دولت میں سالانہ 6 سے 9 فیصد اضافہ ہوا ہے جب کہ اوسط دولت میں سالانہ 3.2 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 1995 کے بعد سے ارب پتیوں کے پاس موجود عالمی دولت کا حصہ 1 فیصد سے بڑھ کر 3 فیصد ہو گیا ہے۔ یہ اضافہ کوویڈ وبائی مرض کے دوران اور بڑھ گیا تھا۔ درحقیقت 2020 میں عالمی ارب پتی افراد کی دولت میں ریکارڈ میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا۔

17. ریاستہائے متحدہ دنیا میں ارب پتیوں کی سب سے زیادہ تعداد کا مرکز ہے جن کی اجتماعی دولت امریکیوں کے ٹیکس فیئرنس کے مطابق نومبر 2023 میں بڑھ کر 5۰2 ٹریلین ڈالر ہو گئی جو اب تک کی سب سے زیادہ رقم ہے۔ 2023 کی تیسری سہ ماہی تک امریکی آبادی کا سب سے اوپر 10 فیصد کل دولت کے دو تہائی کے مالک تھے جب کہ نچلے حصے کے پاس صرف 2۰6 فیصد تھا۔

18. مارکس کے بقول 'ایک ہی قطب پر دولت کا جمع ہونا اور اسکے ساتھ ایک ہی وقت میں مصائب، مشقت کی اذیت، غلامی، جہالت، بربریت، ذہنی انحطاط، مخالف قطب پر جمع ہو جاتے ہیں ہے۔' تقریباً 700 ملین افراد یا عالمی آبادی کا تقریباً 9 فیصد بشمول 333 ملین بچے اس میں رہتے ہیں جسے اقوام متحدہ نے انتہائی غربت سے تعبیر کیا ہے جو کہ یومیہ2۰15 ڈالر سے بھی کم پر گزارہ کرتے ہیں۔

19. ذاتی دولت کا ذخیرہ جب کہ اپنے طور پر بہت اہم ہے لیکن یہ ثانوی ہے کیونکہ سرمایہ دارانہ حکمران اشرافیہ کے جھوٹے گروہ کی اقتصادی طاقت کی ملکیت بڑی بڑی اجارداریوں کے بے پناہ ارتکاز سے منسلک ہے۔

جیمی ڈیمن جے پی مورگن ہیلتھ کیئر انویسٹمنٹ کانفرنس میں۔ [تصویر بذریعہ اسٹیو جرویٹسن / سی سی بائے 2.0] [Photo by Steve Jurvetson / CC BY 2.0]

20. بڑے بینکوں اور مالیاتی اداروں کے زیر کنٹرول وسائل کا پیمانہ بہت زیادہ ہے۔ 2023 میں جے پی مورگن چیس(سی ای او جیمی ڈیمون) فرسٹ ریپبلک حاصل کرنے کے بعد 3.7 ٹریلین ڈالر کے اثاثوں کے ساتھ دنیا کا سب سے بڑا بینک بن گیا جو کہ(برطانیہ کی جی ڈی پی سے زیادہ ہے)۔ بڑی پرائیویٹ ایکویٹی فرمیں جیسے وینگارڈ جس کے (اثاثہ جات زیر انتظام 7.7 ٹریلین ڈالر) اور بلیک راک (9.4 ٹریلین ڈالر) ہیں معیشت کے اپنے بڑے حصوں پر کنٹرول رکھتی ہیں۔ بذات خود وینگارڈ ایس اینڈ پی 500 میں 330 کمپنیوں کا سب سے بڑا شیئر ہولڈر ہے جبکہ بلیک راک دوسرے 38 میں پہلے نمبر پر سرمایہ کار ہے۔

21. 2023 میں ایس اینڈ پی 500 اسٹاک انڈیکس میں تیزی سے اضافہ سات ٹیکنالوجی کمپنیوں کے ذریعے ہوا: ایمیزون، ایپل، الفابٹ (گوگل) میٹا پلیٹ فارمز (فیس بک اور انسٹاگرام) مائیکروسافٹ، نیوڈیا اور ٹیسلا ان کی مشترکہ مارکیٹ کیپٹلائزیشن صرف پچھلے سال میں 5.2 ٹریلین ڈالر بڑھ گئی جو مجموعی طور پر ایس اینڈ پی 500 میں 8.2 ٹریلین ڈالر اضافے کے 60 فیصد سے زیادہ ہے۔ ان اسٹاکس میں صرف چار سرمایہ کاروں — جیف بیزوس (ایمیزون)، مارک زکربرگ (میٹا)، ایلون مسک (ٹیسلا) اور پرائیویٹ انویسٹمنٹ منیجر وینگارڈ — نے اپنی ہولڈنگز سے 491 بلین ڈالر کمائے۔ فوربس کے مطابق پچھلے سال امریکی ارب پتیوں کی دولت میں نصف اضافہ ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے اسٹاک سے ہوا آٹھ ٹیکنالوجی کے ارب پتیوں نے اپنی دولت میں کم از کم 10 بلین ڈالر کا اضافہ کیا۔

22. یہ کمپنیاں اور ان کے مالکان انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر بہت زیادہ طاقت کا استعمال کرتے ہیں خاص طور پر میں مسک کے ٹویٹر جو اب ایکس ہے کے 2022 کے حصول کے بعد۔ وہ ریاست سے اور بھی قریبی طور پر جڑے ہوئے ہیں اور حزب اختلاف اور جنگ مخالف نظریات کو سنسر کرنے کے لیے مواصلات پر اپنا کنٹرول استعمال کرتے ہیں۔ عالمی سوشلسٹ ویب سائٹ کو کلیدی اصطلاحات کے لیے تلاش کے نتائج میں باقاعدگی سے تنزلی کی جاتی ہے اور اس سنسرشپ کا یہ ایک عمل ابتدائی طور پر 2017 میں سامنے آیا تھا جو تب سے جاری ہے۔

فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے پیرس میں جمعہ 14 جولائی 2023 کو عشائیہ سے قبل لوور میوزیم میں ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کا خیرمقدم کیا۔ فرانس آب و ہوا سے لے کر فوجی فروخت تک کے موضوعات پر تعاون کو مزید مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بحر الکاہل کا علاقہ۔ [اے پی فوٹو/اورلین موریسارڈ] [AP Photo/Aurelien Morissard]

23. یہ متحرک سماجی عمل تمام سامراجی ممالک کے علاوہ کم طاقت والے ممالک میں بھی موجود ہے۔ ایشیا کا سب سے امیر آدمی اس وقت ہندوستان کے مکیش امبانی ہیں جس کے پاس (100 بلین ڈالر کی مجموعی مالیت ہے)، جو مودی کے اصل حامیوں میں سے ایک ہیں جن کی دولت میں بی جے پی کی دسمبر میں ریاستی انتخابات میں کامیابی کے بعد اضافہ دیکھا گیا۔ امبانی کی دولت مارکیٹ کیپٹلائزیشن کے لحاظ سے ہندوستان کی سب سے بڑی کمپنی ریلائنس انڈسٹریز کے کنٹرول سے حاصل ہوتی ہے جو توانائی، ریٹیل، ٹیلی کمیونیکیشن اور ٹیکسٹائل کے بڑے کاروباروں کے ساتھ ایک گروپ ہے۔ میکسیکو میں سب سے امیر ترین شخص کارلوس سلم جس کے پاس (105 بلین ڈالر کی مجموعی مالیت) ہے جو اپنے گروپ گروپو کارسو اور دیگر سرمایہ کاری کے ذریعے میکسیکو کی معیشت کے بڑے حصوں کو کنٹرول کرتا ہے۔

24. یہ وہ قوتیں ہیں جو پوری دنیا میں جمہوریت کی آکسیجن چوس رہی ہیں۔ یہ خیال کہ بنیادی جمہوری حقوق ان معاشی قوتوں سے لڑے بغیر محفوظ رکھا جا سکتا ہیمحض خواہش مندانہ سوچ ہے۔

امریکی جمہوریت کا بحران اور 2024 کے انتخابات

25. عالمی سامراج کے کاک پٹ اور مالیاتی سرمائے کے عالمی مرکز ریاستہائے متحدہ میں یہ عمل کہیں زیادہ واضح طور پر عیاں ہے۔ 2024 کی انتخابی مہم 6 جنوری 2021 کی فاشسٹ بغاوت کے سائے کے نیچے بڑھ کر آ رہی ہے ڈونلڈ ٹرمپ نے اس بغاوت کے زریعے بائیڈن کو اپنی انتخابی شکست کو کانگریس کی تصدیق کو روکنے، آئین کو ختم کرنے اور ایک شخصی آمریت قائم کرنے کی کوشش کی تھی۔

سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ منگل 19 دسمبر 2023 کو واٹر لو، آئیووا میں، کاکس ریلی کے عہد کے دوران خطاب کر رہے ہیں۔ [اے پی فوٹو/چارلی نیبرگل] [AP Photo/Charlie Neibergall]

26. بغاوت کے اگلے دن شائع ہونے والے اپنے بیان میں ورلڈ سوشلسٹ ویب سائٹ نے لکھا کہ یہ 'ریاستہائے متحدہ کی تاریخ میں ایک اہم سیاسی موڑ تھا:'

امریکی جمہوریت کی ناقابل تسخیریت اور بے وقت ہونے کی شاندار تسبیحات کو ایک کھوکھلے سیاسی افسانے کے طور پر مکمل طور پر بے نقاب کیا گیا ہے۔ مشہور فقرہ، 'یہ یہاں نہیں ہو سکتا'، سنکلیئر لیوس کے امریکی فاشزم کے عروج کے منصفانہ مشہور افسانوی اکاؤنٹ کے عنوان سے لیا گیا ہے کو واقعات نے فیصلہ کن طور پر پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یہاں نہ صرف فاشسٹ بغاوت ہو سکتی ہے۔ یہ یہاں سب کچھ 6 جنوری 2021 کی سہ پہر کو ہوا ہے۔

مزید برآں اگر ابتدائی کوشش اپنے مقصد حاصل نہ کر سکی تو یہ دوبارہ ہو گی۔

27. بغاوت سے پہلے کے مہینوں میں اور اس کے نتیجے میں ڈبلیو ایس ڈبلیو ایس نے فاشسٹ بغاوت کے پیچھے وسیع سازش کو دستاویزی شکل دی جس میں ٹرمپ کے کہنے پر کیپیٹل پر حملہ صرف آخری مرحلہ تھا۔ اس سازش میں نہ صرف موجودہ صدر بلکہ ریپبلکن پارٹی کی زیادہ تر قیادت کے ساتھ ملٹریُ اور پولیس کے آپریٹس اور عدلیہ کے اہم حصے شامل تھے۔

28. سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے کسی بھی ادارے نے آمریت کے قیام کی کوشش کی فعال طور پر مخالفت نہیں کی جو کامیابی کے بہت قریب تھی۔ فوج اور نیشنل گارڈ نیچے کھڑے ہو گئے جبکہ ٹرمپ کے فاشسٹ ہجوم نے یرغمالیوں کی تلاش میں کیپیٹل کی عمارت پر قبضہ کر لیا۔ ڈیموکریٹک پارٹی نے کچھ نہیں کہا کیونکہ بغاوت سامنے آرہی تھی بائیڈن نے خود ٹرمپ کو قومی ٹیلی ویژن پر واپس جانے اور اسے ختم کرنے کی قابل رحم اپیل جاری کرنے سے پہلے گھنٹوں انتظار کیا۔

29. گزشتہ تین سالوں میں 6 جنوری کے واقعات کے بارے میں جو اہم معلومات سامنے آئی ہیں اس سے اس تشخیص کی تصدیق ہوتی ہے کہ کیا ہوا تھا۔ بغاوت کو جنم دینے والے سماجی اور سیاسی حالات درمیانی عرصے میں ہی شدت اختیار کر گئے ہیں۔

واشنگٹن میں 6 جنوری 2021 کو یو ایس کیپیٹل کے مشرقی محاذ پر حلف رکھنے والوں کے ارکان۔ [اے پی فوٹو/مینوئل بالس سینیٹا] [AP Photo/Manuel Balce Ceneta]

30. 2024 کے انتخابات موجودہ سیاسی بحران اور ریاستی ڈھانچے کے تمام اداروں کی ٹوٹ پھوٹ کے حالات میں ہو رہے ہیں۔ یہ واضح نہیں ہے کہ انتخابات یہ فرض کرتے ہوئے کہ یہ شیڈول کے مطابق منعقد ہونگے ایسا نتیجہ پیدا کرے گا جسے ہارنے والی پارٹی جائز نہیں سمجھے گی۔

31. جیسے ہی 2023 کا اختتام قریب ہوا کولوراڈو میں سپریم کورٹ اور مین میں سیکرٹری آف سٹیٹ دونوں نے فیصلہ دیا کہ ٹرمپ 6 جنوری کو اپنے آئین مخالف اقدامات کی وجہ سے الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے جبکہ ریپبلکن کے زیر کنٹرول والی ریاستوں میں حکام نے جوابی کارروائی میں بائیڈن کو ہٹانے کی دھمکی دی۔ ریاست ٹیکساس نے ایسے اقدامات کیے ہیں جو امیگریشن پالیسی کے تعین کے لیے وفاقی حکومت کے آئینی اختیار کو کھلے عام چیلنج کرتے ہیں۔ نومبر کے انتخابات کے نتیجے میں بھی ٹیکساس کی طرح ایسا ہی چیلنج مکمل طور پر ممکن ہے۔

32. بڑھتے ہوئے علاقی رجحانات خانہ جنگی کے بعد کے پورے تصفیہ کو توڑ دینے کا خطرہ میں ہیں جس نے علیحدہ ریاستوں پر متحد وفاقی اتھارٹی کو دوبارہ قائم کیا۔ یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ 1860 میں لنکن کسی بھی جنوبی ریاست میں بیلٹ پیپر پر نظر نہیں آئے تھے۔ لنکن کے افتتاح سے پہلے سات جنوبی ریاستوں کی علیحدگی اور کنفیڈریٹ ریاستوں کی تشکیل کے فیصلے نے ان واقعات کو حرکت میں لایا جس کی وجہ سے چند ماہ بعد خانہ جنگی شروع ہوئی۔

33. یقیناً موجودہ سیاسی ڈھانچے کو پھاڑ دینے والا تنازعہ حکمران طبقے کے ترقی پسند اور رجعت پسند دھڑوں کے درمیان نہیں ہے۔ ڈیموکریٹس اور ریپبلکن کارپوریٹ اور مالیاتی اولیگارکی کے دو رجعتی دھڑے ہیں۔ ان کے حکمت عملی کے اختلافات کتنے ہی شدید ہوں لیکین وہ دونوں مکمل طور پر اپنے مشترکہ رجعتی ایجنڈے کے ماتحت ہیں۔

34. بائیڈن کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ جمہوریت کے لیے ٹرمپ کے خطرے کو اپنی دوبارہ انتخابی مہم کے مرکزی دھارے میں رکھیں گے۔ یہ ایک چکلا کے رکھوالے کے مترادف ہے جو یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ اخلاقی کاروباری طریقوں کو آگے بڑھا کر اپنی اسٹیبلشمنٹ کی ساکھ بنائے گا۔ یہ بائیڈن ہی تھا جس نے 6 جنوری کی بغاوت کے دنوں میں اعلان کیا تھا کہ ایک 'مضبوط' ریپبلکن پارٹی کا ہونا ان کا ہدف ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی نے بغاوت کے پیچھے سیاسی اور سماجی قوتوں کے کسی بھی انکشاف کو روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے۔ مختلف تحقیقات اور سماعتیں چلتی رہیں آخر کار کچھ بھی نہیں ہوا۔

صدر جو بائیڈن کا تل ابیب میں بدھ 18 اکتوبر 2023 کو بین گوریون بین الاقوامی ہوائی اڈے پر پہنچنے کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے استقبال کیا۔ (اے پی فوٹو/ایوان ووکی) [AP Photo/Evan Vucci]

35. گزشتہ تین سالوں میں بائیڈن انتظامیہ کا مرکزی خیال روس کے خلاف جنگ کو بڑھانا رہا ہے جس کے بعد غزہ میں نسل کشی کی کھلی حمایت کی گئی ہے۔ سال کے اختتام پر بائیڈن انتظامیہ کے اعلیٰ حکام نے یوکرین کے لیے فوجی فنڈنگ ​​میں اضافے کے بدلے میں ریپبلکنز کے فاشسٹ مخالف تارکین وطن ایجنڈے کی حمایت کرنے کے اپنے عہد کا اعادہ کیا۔

36. ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز نے غزہ میں نسل کشی کی حمایت کرنے اور اسرائیل کی مخالفت کو یہود دشمنی قرار دینے کی پہلے سے بھی زیادہ ظالمانہ مہم میں اتحاد کیا ہے۔ ہارورڈ کے صدر کلاڈین گے کا جبری استعفیٰ کالج کیمپس میں سیاسی دھمکیوں اور سنسرشپ کی مہم کا حصہ ہے جس میں نسل کشی کے مخالف طلبہ گروپوں پر پابندی بھی شامل ہے۔

سوشلزم بمقابلہ سرمایہ داری اور امراشاہی

37. یہ دعویٰ کرنا کہ حکمران اشرافیہ کی دولت اور معیشت پر اس کے تسلط اور حکمرانی پر کوئی حملہ کیے بغیر ہی جمہوری شکلوں کا دفاع کیا جا سکتا ہے سیاسی اور فکری بے ایمانی کی انتہا ہے۔

38. حقیقت یہ ہے کہ دائیں بازو طاقت جمع کر رہا ہے اس کی اندرونی طاقت کے ساتھ بائیں بازو کے مکمل دیوالیہ پن کے ساتھ اس کا کوئی کم تعلق نہیں ہے۔ جو جعلی بائیں بازو کی سیاست کی مختلف شکلوں کی بے ڈھنگی پر مبنی ہے جیسا کہ برنی سینڈرز اور امریکہ میں ڈیموکریٹک سوشلسٹ آف امریکہ، جرمنی میں بائیں بازو کی پارٹی، سپین میں پوڈیموس، یونان میں سریزا، لاطینی امریکہ میں'پنک ٹائیڈ' لولا کے حامیوں کی تحریک نجی ملکیت، کارپوریٹ منافع اور نجی دولت کے مقدس سجدوں سے بھرپور ہے۔ 'سوشلزم' کی ان کی گاہے بگاہے دعوتیں مکمل طور پر لفظیت اور خالی باتوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ وہ جس 'سوشلزم' کا خواب دیکھتے ہیں وہ اس طرح کا ہے جو وال سٹریٹ پر گراوٹ کے بغیر حاصل کیا جا سکتا ہے یعنی کہ طبقاتی جدوجہد کے بغیر حکمران طبقے کی ملکیت کو ضبط کو کیے بغیر اور محنت کش طبقے کو اقتدار کی منتقلی کے بغیر یہ ہے انکا سوشلزم۔ جیریمی کوربن کا 'سوشلزم' پرانے فابیئن کو تقریباً بالشویک ظاہر کرتا ہے۔ اس طرح سینڈرز، اوکاسیو کورٹیز اور امریکہ کے ڈیموکریٹک سوشلسٹ روزویلٹ کی نئی ڈیل سے لے کر جانسن کی عظیم سوسائٹی تک کے عرصے کے دوران بورژوا اصلاح پسندی کے دائیں طرف ہیں۔

39. جعلی بائیں بازو کے لیے حقیقی سماجی حلقہ اعلیٰ متوسط ​​طبقے کے مراعات یافتہ طبقے ہیں۔ ان کا مقصد سماجی اور معاشی زندگی کی ریڈیکل تنظیم نو نہیں ہے بلکہ دولت کی سب سے اوپر کی دوبارہ تقسیم پر ہے۔ مختلف قسم کی نسلی اور صنفی سیاست کا لامتناہی فروغ وہ شکل ہے جس کے ذریعے اعلیٰ متوسط ​​طبقے کے یہ حصے کارپوریٹ، ڈائریکٹرز بورڈ، اکیڈمی، میڈیا، ٹریڈ یونین اپریٹس اور ریاست کے اندر طاقت اور اپنی مراعات اور عہدوں کے لیے مقابلہ کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔

40. ریاستہائے متحدہ میں بائیڈن انتظامیہ کے تین سالوں پر محیط امریکہ کے ڈیموکریٹک سوشلسٹوں کے 'بائیں' کے ڈھونگ کو جامع طور پر بے نقاب کرنے کا کام کیا ہے۔ کانگریس میں ڈی ایس اے کے سرکردہ اراکین بشمول اوکاسیو کورٹیز نے ریل روڈ کے مزدوروں کی طرف سے ہڑتال کی کارروائی کو غیر قانونی قرار دینے اور یوکرین میں روس کے خلاف یو ایس - نیٹو کی جنگ کی مالی اعانت کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ غزہ میں اسرائیلی نسل کشی کے درمیان اوکاسیو کورٹیز نے اعلان کیا کہ وہ اسرائیل کے آئرن ڈوم ڈیفنس کے لیے فنڈنگ ​​کی حمایت کرے گی۔

41. سبھی طبقاتی اور معاشی طاقت کے بنیادی سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے جمہوریت کے دفاع اور فاشزم سے لڑنے کی بات کرتے ہیں اور اس کے لیے سرمایہ داری کے خاتمے کے لیے عالمی سطح پر محنت کش طبقے کے متحرک ہونے کی ضرورت کو تسلیم کرنا گھٹیا، سیاسی طور پر نامرد اور لفظیت سمجتے ہیں۔ ارب پتیوں کی دولت کو ضبط کیا جانا چاہیے اور بڑی بڑی کارپوریشنوں اور بڑے شیئر ہولڈرز کے معاوضوں کو ختم کر کے انہیں پبلیک کے کنٹرول کی یوٹیلٹیز میں تبدیل کیا جانا چاہیے جو سماجی ضروریت کی بنیاد پر ہوں نہ کہ نجی منافع کی بنیاد پر۔ سرمایہ دارانہ ریاست کے جمہوریت مخالف اداروں اور جابرانہ اداروں جیسا کہ(پیشہ ورانہ فوج، پولیس اور انٹیلی جنس ایجنسیوں) کو ختم کر کے ان کی جگہ محنت کشوں کی تنظیموں کے کنٹرول میں لایا جانا چاہیے تاکہ عالمی سطح پر ایک جمہوری اور منصوبہ بند معیشت کے قیام کو عمل میں لایا جائے۔

42. پوری دنیا میں محنت کشوں کی بڑھتی ہوئی جدوجہد سوشلزم کے لیے ایک وسیع بین الاقوامی تحریک کی ترقی کی معروضی بنیاد ہے۔ اس معروضی تحریک کو اقتدار حاصل کرنے کے لیے شعوری جدوجہد میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ محنت کش طبقے میں بڑھوتی کے لیے اسے مارکسی نظریہ اور فورتھ انٹرنیشنل کی بین الاقوامی کمیٹی کے ذریعے لڑے گئے پروگرام اور اصولوں پر مبنی وسیع پیمانے پر بین الاقوامی سوشلسٹ تحریک کی ضرورت ہے۔

Loading