اُردُو

پاکستان کی ریاست 17 لاکھ افغان مہاجرین کو نکالنے کے لیے انہیں ہراساں کرنے اور دھمکیاں دینے کی مہم چلا رہا ہے

یہ 1 نومبر 2023 کو انگریزی میں شائع ہونے 'Pakistan mounting campaign of state harassment and intimidation to expel 1.7 million Afghan refugees' والے اس ارٹیکل کا اردو ترجمہ ہے۔

دسیوں ہزار غریب افغان مہاجرین جن میں سے اکثر پاکستان میں برسوں اور یہاں تک کہ کئی دہائیوں سے مقیم ہیں- حالیہ ہفتوں میں حراست اور جلاوطنی سے بچنے کے لیے پھر سے افغانستان میں داخل ہو رہے ہیں۔

پاکستان کی فوج کی مکمل حمایت کے سے ملک کی عبوری حکومت نے یکم نومبر سے تمام 1.7 ملین 'غیر قانونی' افغان مہاجرین کو ملک بدر کرنے کا عزم کیا ہے۔

'رضاکارانہ طور پر' پاکستان چھوڑنے کی سرکاری ڈیڈ لائن کے گزرنے سے پہلے ہی عشروں کی سامراجی جنگ اور نوآبادیاتی قبضے کی وجہ سے پیدا ہونے والی سماجی تباہی سے پاکستان میں پناہ لینے والے افغان باشندے ریاستی ایذا رسانی اور دھمکیوں کی ظالمانہ مہم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔

طورخم پاکستان سرحد کی طرف جانے والے ٹرک پر سوار افغان مہاجرین 31 اکتوبر کی میعاد ختم ہونے سے چند گھنٹے قبل واپس گھر لوٹ رہے ہیں، پاکستانی حکومت کی ڈیڈ لائن ان لوگوں کے لیے جو ملک میں "غیر قانونی طور پر" ہیں انہیں چھوڑنے یا ملک بدری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ [اے پی فوٹو/محمد سجاد] [AP Photo/Muhammad Sajjad]

منگل کو جاری ہونے والے ایک بیان میں ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے کہا کہ حکومت 'دھمکیوں، بدسلوکی اور حراست کا استعمال کر رہی ہے تاکہ قانونی حیثیت کے بغیر افغان پناہ گزینوں کو افغانستان واپس جانے یا ملک بدری کا سامنا کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔' ایچ آر ڈبلیو کی محقق فرشتہ عباسی نے الجزیرہ کو بتایا کہ 'پاکستان کی جانب سے افغانوں کی واپسی کے لیے اعلان کردہ ڈیڈ لائن جو حراست مار پیٹ اور بھتہ خوری کا باعث بنی ہے جس سے ہزاروں افغان اپنے مستقبل کے بارے میں خوف میں مبتلا ہیں۔'

بھاری سرکاری جرمانے کے خوف سے زمینداروں نے افغانوں کو ان کے گھروں سے نکال دیا ہے اور آجروں نے انہیں اجتماعی طور پر برخاست کر دیا ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پولیس نے افغان مہاجرین کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی ہیں۔

پاکستانی حکام نے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق، بین الاقوامی پناہ گزینوں کی امدادی تنظیموں اور پاکستان میں مقیم انسانی حقوق کے گروپوں کی جانب سے بڑے پیمانے پر ملک بدری کی مہم کو ختم کرنے یا کم از کم تاخیر کے لیے کی گئی اپیلوں کو مسترد کر دیا ہے۔

وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے گزشتہ ہفتے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ 'یکم نومبر کے بعد غیر قانونی طور پر رہنے والے تارکین وطن پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔' اس بات کی نشاندہی کرنے کے لیے انہوں نے دھمکی آمیز انداز میں مزید کہا کہ 'رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑنے والوں کو ریاست کی طرف سے پکڑے گئے لوگوں کے مقابلے میں کم مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔'

حکومت نے چاروں صوبوں میں ملک بدری کے مراکز جو درحقیقت بڑے پیمانے پر حراستی کیمپ قائم کیے ہیں تاکہ 'غیر قانونی' پناہ گزینوں کو ان کے اخراج سے پہلے ان کو 'پراسیس' کیا جا سکے۔

پاکستان کو ایک تباہ کن معاشی بحران کا سامنا ہے اور اس کی سیاسی اسٹیبلشمنٹ اور ریاستی اداروں بشمول فوج عوام کی نظروں میں بڑی حد تک بدنام ہوئی ہے، پاکستانی حکام افغان مہاجرین کے خلاف انتقامی کارروائی کو عوامی غصے کے رخ کو موڑنے کے ایک ذریعہ کے طور پر دیکھتے ہیں اور ریاستی جبر کے اداروں کو فروغ دے رہے ہیں۔

پاکستان میں تارکین وطن مخالف ظالمانہ مہم ایک نام نہاد نگراں حکومت کی طرف سے کی جا رہی ہے جس نے اگست میں اقتدار سنبھالا تھا اور آئین کے مطابق اسے صرف 90 دن کے لیے اقتدار سنبھالنا تھا جس کے دوران قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہونے تھے۔ تاہم فوج کے کہنے پر اور زیادہ تر سیاسی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے انتخابات کو کم از کم جنوری کے آخر تک موخر کر دیا گیا ہے۔ عبوری طور پر نگراں حکومت کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی طرف سے مقرر کردہ انتہائی غیر مقبول اسٹریٹی کے اقدامات کو آگے بڑھانے کا کام سونپا گیا ہے۔

پناہ گزینوں کو نشانہ بنانے میں پاکستان کی حکمران اشرافیہ سامراجی طاقتوں کی پلے بک سے ایک صفحہ اٹھا رہی ہے جنہوں نے اپنی خونخوار استصالی جنگوں اور سرمایہ دارانہ معاشی تباہی اور ماحولیاتی تباہی کی وجہ سے پناہ گزینوں میں عالمی اضافے کا قلعہ بند شمال امریکہ اور قلعہ بند یورپ کے طور پر تارکین وطن کی پالیسیاں کا جواب دیا ہے۔

اس نے واشنگٹن اور یورپی یونین کی طاقتوں کو پاکستان سے افغانستان کی طالبان حکومت کے جبر سے فرار ہونے والوں کو پناہ گاہیں فراہم کرنے کے لیے منافقانہ کال جاری کرنے سے نہیں روکا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے 19 اکتوبر کو ایک بیان میں اعلان کیا کہ 'ہم پاکستان سمیت افغانستان کے پڑوسیوں کی بھرپور حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ بین الاقوامی تحفظ کے خواہشمند افغانوں کو داخلے کی اجازت دیں۔'

امریکی سامراج اور افغانستان کی تباہی

امریکی سامراج پر ان خوفناک سماجی اور معاشی حالات کی بنیادی ذمہ داری عائد ہوتی ہے جنہوں نے گزشتہ چار دہائیوں کے دوران لاکھوں افغانوں کو ان کے گھروں سے بے گھر کر دیا ہے۔ 1970 کی دہائی کے آخر میں واشنگٹن نے پہلے سوویت حملے کو اکسانے اور پھر کابل میں سوویت حمایت یافتہ حکومت کو کمزور کرنے کے لیے اسلام پسند عسکریت پسندوں کی سرپرستی شروع کی۔ ان فورسز میں اسامہ بن لادن کی القاعدہ بھی شامل تھی۔ 1980 کی دہائی میں افغانستان میں سی آئی اے کے ہتھیاروں کے لیے ایک طویل عرصے سے امریکی اتحادی کے طور پر خدمات انجام دینے والے پاکستان کے ساتھ واشنگٹن نے جنرل ضیاء الحق کی سفاکانہ کام کرنے والی آمریت اور اس کے رجعتی منصوبے کو 'اسلامی شکل' دینے کے لیے اپنی مکمل حمایت کی۔

افغانستان سے سوویت انخلاء کے بعد ایک خونریز خانہ جنگی شروع ہوئی اور اسلام پسند طالبان نے بالآخر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ 11 ستمبر کے بعد بش انتظامیہ نے جغرافیائی لحاظ سے اہم ملک پر وحشیانہ حملے اور نو نوآبادیاتی قبضے کو قانونی حیثیت دینے کے لیے افغانستان میں بن لادن کی موجودگی کا فائدہ اٹھایا - ایک ایسا قبضہ جو دو دہائیوں پر محیط رہا اور اس میں لاکھوں جانیں گئیں۔ براؤن یونیورسٹی کے واٹسن انسٹی ٹیوٹ کے کاسٹ آف وار کے منصوبے کے مطابق جب سے امریکی قیادت میں جنگ شروع ہوئی ہے 5.9 ملین افغان ملک سے نکل چکے ہیں یا اندرونی طور پر بے گھر ہو چکے ہیں۔

2021 میں طالبان کی مزاحمت اور کابل میں کرپٹ نیو نوآبادیاتی حکومت کے خلاف عوامی مخالفت کے پیش نظر امریکی اور اتحادی افواج کی شرمناک رخصتی کے بعد واشنگٹن نے افغان عوام سے بدلہ لیتے ہوئے ملک کو معاشی تباہی میں ڈال دیا۔ طالبان کی زیرقیادت حکومت کے خلاف پابندیوں کے علاوہ امریکی حکومت نے نیویارک فیڈرل ریزرو کے پاس موجود افغان سینٹرل بینک کے 7 ارب ڈالر کے اثاثوں کو غیر قانونی طور پر ضبط کر لیا۔

افغانستان کی 60 فیصد سے زیادہ آبادی اس وقت ایک ڈالر یومیہ سے کم پر گزارہ کر رہی ہے جب کہ حیران کن طور پر 97 فیصد غربت کی لکیر سے نیچے آ چکے ہیں۔ امریکی نیٹو کے قابضین کی دہشت گردی کی وجہ سے غریب افغانوں کی آبادی کا ایک بڑا حصہ ذہنی طور پر صدمے کا شکار ہے اور ہزاروں جسمانی طور پر معذور ہیں۔ فروری 2023 کی ورلڈ فوڈ پروگرام کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 4 ملین افراد شدید غذائی قلت کا شکار ہیں جن میں 3.2 ملین پانچ سال سے کم عمر کے بچے بھی شامل ہیں۔ تقریباً 20 ملین افراد یا آبادی کا نصف مارچ 2023 تک شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہونے کا اندازہ لگایا گیا تھا ان میں سے 6 ملین ہنگامی مرحلے میں تھے۔

پاکستان کی غریب افغان مہاجرین کی آبادی

پچھلی چار دہائیوں کی جنگوں اور اتھل پتھل کے نتیجے میں پاکستان میں پناہ لینے والے افغانوں کی بار بار آبادی کی منتقلی ہوئی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اگست 2021 میں کابل میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پچاس لاکھ سے زائد افغان باشندے پاکستان میں داخل ہوئے۔

پناہ گزینوں کے بہاؤ نے دونوں ممالک کے پشتون بولنے والے علاقوں کے درمیان تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کا کام کیا ہے۔ تاریخی طور پر افغان پاکستان سرحد کا مطلب دونوں طرف رہنے والے پشتون قبائل کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی ہے۔ یہ 1893 میں برطانوی ہندوستان کے نوآبادیاتی حکمرانوں کی سازشوں کے نتیجے میں قائم کی گی تھی اور افغان حکومتوں نے طویل عرصے سے یہ استدلال کیا ہے کہ نام نہاد ڈیورنڈ لائن کا مقصد صرف اثر و رسوخ کے دائروں کی نشاندہی کرنا تھا نہ کہ ریاستی حدود کا یہ اسلام آباد اور کابل کے درمیان طویل عرصے سے تنازعہ کی ایک بنیادی وجہ رہا ہے جس کے نتیجے میں امریکی حمایت یافتہ حکومت اور موجودہ طالبان کی زیر قیادت دونوں کی اس پر مسلح جھڑپیں ہوئیں۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کے مطابق تقریباً نصف افغان مہاجرین خیبر پختونخواہ میں رہتے ہیں جو پہلے شمال مغربی سرحدی صوبہ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ 2018 میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) ایک نیم خودمختار علاقہ جس میں اکثریتی طور پر پشتون قبائل ہیں کو خیبر پختونخوا میں ضم کر دیا گیا۔ ان قبائل نے پاک افغان سرحد پر اپنی برادریوں کی تقسیم کے خلاف شدید مزاحمت کی ہے۔

مزید 24 فیصد مہاجرین پاکستان کے غریب ترین صوبے بلوچستان میں رہ رہے ہیں۔ پاکستانی آبادی کے اس حصہ کی اکثریت جن میں سے بہت سے لوگ مٹی گھروں جھونپڑیوں یا دیگر عارضی پناہ گاہوں میں رہنے پر مجبور ہیں جن میں تعلیم یا صحت کی سہولیات بہت کم یا سرے ہے ہی نہیں۔

حکومت پاکستان کی جانب سے جبری ملک بدری کے اعلان نے پوری افغان پناہ گزین برادری میں خوف و ہراس اور صدمے کی لہریں پیدا کر دی ہے جن میں دونوں قسم کے یعنی غیر دستاویزی تارکین وطن اور

دستاویزات رکھنے والوں پر مشتمل ہیں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ حکومت نے 2.7 ملین افغانوں کو یقین دلایا ہے جن کے پاس کاغذات ہیں کہ وہ 'غیر قانونی' کے خلاف کریک ڈاؤن سے متاثر نہیں ہوں گے۔ تاہم وہ لوگ بھی جنہیں حکومت تسلیم کرتی ہے کہ قانونی حیثیت رکھتے ہیں انتہائی خوفزدہ ہیں۔ یہ بنیادی طور پر ریاست کی افغان مخالف مہم کو متحرک کرنے والی شاونسٹ سیاست کی وسعت اور اندھا دھند کردار کی وجہ سے ہے۔ مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ تقریباً 1.4 ملین پناہ گزینوں کے پاس پروف آف رجسٹریشن (پی او آر) کارڈز ہیں جن کی میعاد 30 جون کو ختم ہو گئی ہے اور وہ حکام کی نااہلی اور تعطل کی وجہ سے تجدید کرنے سے قاصر ہیں۔

پاکستان کی حکومت نے اپنے تارکین وطن مخالف کریک ڈاؤن کو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے حملوں کی تیز ہوتی لہر کو دبانے اور روکنے کے لیے ضروری قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ حکومتی عہدیداروں نے پاکستان میں قائم اسلامی بنیاد پرست ملیشیا پر الزام لگایا ہے کہ وہ پناہ گزینوں کی حمایت حاصل کر رہی ہے جس کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔

کابل میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد سے پاکستان میں نظریاتی روابط کے باوجود طالبان سے مکمل طور پر الگ تنظیم کے طور پر ٹی ٹی پی کے دہشت گردانہ حملے تیز ہو گئے ہیں۔ اسلام آباد نے طالبان پر الزام لگایا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کو افغانستان سے کام کرنے کی اجازت دے رہا ہے اور اسے دبانے کا مطالبہ کیا ہے۔

حکومتی وزراء نے حالیہ دہشت گردانہ حملوں کا ذمہ دار افغانوں کو ٹھہرا کر افغان مخالف جذبات کو ہوا دی ہے۔ 17 اکتوبر کو وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے دعویٰ کیا کہ اس سال 24 میں سے 14 خودکش حملے افغان شہریوں نے کیے تھے۔ بلوچستان کی صوبائی حکومت میں وزیر داخلہ زبیر جمالی نے کہا کہ 'وہ ملک کو غیر مستحکم کرنے میں ملوث ہیں اور اسے برداشت نہیں کیا جائے گا'۔

ٹی ٹی پی افغانستان پر امریکی قبضے کے دوران فاٹا میں امریکہ مخالف قابض افواج کے خلاف پاکستانی فوج کی کارروائی کا نتیجہ ہے۔ 1980 کی دہائی میں یہ خطہ کابل میں سوویت حمایت یافتہ حکومت کے خلاف لڑنے والی القاعدہ سمیت سی آئی اے کی مالی اعانت سے چلنے والی اسلامی ملیشیا کی کارروائیوں کا مرکز رہا ہے۔

11 ستمبر 2001 کے حملے کے بعد بش انتظامیہ نے امریکی حمایت یافتہ پاکستانی آمر جنرل پرویز مشرف کو مجبور کیا کہ وہ افغانستان میں طالبان حکومت کے لیے اپنی حمایت ختم کر دیں اور سرحد پر کنٹرول قائم کرنے کے لیے فاٹا میں سکیورٹی فورسز بھیجیں۔ مشرف نے پاکستانی حکمران طبقے کے مخصوص خونی طریقے استعمال کیے۔ اس کے حکم پر فوج نے اندھا دھند فضائی حملے اور ہیلی کاپٹر گن شپ حملے شروع کیے اور دیہاتوں اور کھیتوں کو تباہ کر دیا اجتماعی سزائیں دیں اور تشدد اور لاپتہ کرنے کا وسیع استعمال کو بروائے کار لایا گیا۔

اس نے بڑھتی ہوئی دشمنی اور مسلح مخالفت کو ہوا دی۔ ملک بھر میں پشتونوں کی بڑے پیمانے پر اندرونی نقل مکانی کے نتیجے میں 20 لاکھ سے زائد افراد فاٹا سے نقل مکانی کر چکے ہیں جس نے ایک بڑے پیمانے پر جاری انسانی بحران کو جنم دیا ہے۔

Loading