اُردُو
Perspective

نیتن یاہو کا عدالتی کودیتا اور صیہونیت تاریک بند گلی میں۔

یہ 27 جولائی 2023 میں انگریزی میں شائع ہونے والے 'Netanyahu’s judicial coup and the dead end of Zionism' اس ارٹیکل کا اردو ترجمہ ہے۔

وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی انتہائی دائیں بازو کی حکومت نے سموار کے روز قانون سازی کے زریعے اسرائیل کی تاریخ میں بے مثال پاپولر عوامی مخالفت کے باوجود تمام روکاوٹوں اور بندھنوں سے آزاد اختیارات اور طاقت کو محفوظ کر لیا۔

نیا قانون سپریم کورٹ 'غیر معقولیت' کی بنیاد پر منتخب عہدیداروں کے فیصلوں کے اختیارات کو ختم کرتا ہے جس سے کنیسیٹ (اسرائیلی پارلیمنٹ) عدالت کے فیصلے کو سادہ اکثریت سے کالعدم کرنے کا اختیار ملتا ہے۔ ایک ہی جھٹکے میں یہ مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کے درمیان اختیارات کی کسی بھی علیحدگی کو ہٹا دیتا ہے۔

اب سے حکومت ججوں کے انتخاب کو سیاسی رنگ دے سکتی ہے اور سزا یافتہ مجرموں کو ریاست کے اعلیٰ ترین عہدوں پر تعینات کر سکتی ہے اور نیتن یاہو کو جو اس وقت بدعنوانی کے الزامات کے تحت مقدمے کی سماعت میں ہیں کو سزا سے بچنے کی اجازت دے سکتی ہے اور اس کی بدعنوانی جو انہیں سالوں تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال سکتی ہے۔

سپریم کورٹ میں نیتن یاہو ایک ایسے ادارے کو نشانہ بنا رہا ہے جس نے فلسطینیوں کے وحشیانہ جبر میں بار بار ملی بھگت کی ہے آباد کاروں کے تشدد پر پردا ڈالا ہے اور 2018 کے قومی ریاست کے قانون کی صدارت کی ہے جس میں اسرائیل کو 'یہودی لوگوں کا قومی گھر' قرار دیا گیا ہے اور عرب آبادی کو دوسرے درجے کے شہریوں کے طور پراس کی کی تصدیق کی گئی ہے۔

حتیٰ کہ یہ اقدامات نیتن یاہو کی انتہائی قوم پرستوں اور مذہبی صیہونیوں کی حکومت کے لیے ناکافی سمجھے جاتے ہیں وہ مقبوضہ مغربی کنارے کے مکمل الحاق پورے اسرائیل میں نسلی قتل عام اور ایک ایسے معاشرے پر آمرانہ حکمرانی مسلط کرنا چاہتی ہے جس کی خصوصیت شدید سماجی عدم مساوات، عسکریت پسندی اور ثقافتی رد عمل میں اضافے سے دوچار ہے۔

معاشرے پر اس طرح کے اقدامات کے امکان نے اسرائیل کی ریاست کے لیے ایک وجودی بحران کو جنم دیا ہے جس نے سات ماہ سے جاری مظاہروں کو بھڑکایا مظاہرین پر پولیس کے تشدد کے مناظر کے دوران لاکھوں افراد کو متحرک کیا۔ برطانیہ کے چینل 4 ٹیلی ویژن پر بات کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم ایہود اولمرٹ نے خبردار کرتے ہوئے کہا 'یہ ایک سنگین خطرہ ہے۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا، اور اب ہم خانہ جنگی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔'

حزب اختلاف کی لہر کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ 10,000 سے زیادہ ریزرو فوج کے ارکان نے یہ اعلان کیا ہے کہ اگر عدالتی بغاوت آگے بڑھی تو وہ ڈیوٹی کرنے سے انکار کر دیں گے یہ کہتے ہوئے کہ وہ ایک ایسی حکومت کے لیے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالنا جاری رکھنے کو تیار نہیں ہیں جو اب جمہوری نہیں ہے۔

فوج نوجوان یہودی اسرائیلیوں کے لیے کئی سال کی فوجی خدمات اور سالانہ ریزرو ڈیوٹی کا مطالبہ کرتی ہے۔ 56 سالوں سے فوجی خدمات کا مطلب فلسطینی اور شامی زمین پر اسرائیل کے غیر قانونی قبضے کو نافذ کرنا رہا ہے تلاشی اور گرفتاری کے لیے چھاپے، جبری بے دخلی، مسماری اور دیگر تعزیری اقدامات کے ساتھ ساتھ حملے کرنے والے اسرائیل مسلح آباد کاروں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔

ریزرو فوج کا خدمت کرنے سے انکار محنت کشوں اور پیشہ ور متوسط ​​طبقے کی پرتوں کے درمیان انتہائی دائیں بازو اور انتہا پسند آباد کاروں کی فلسطینیوں کے خلاف ہمہ جہت جنگ کو ہوا دینے کی کوششوں پر بڑھتی ہوئی تشویش کی عکاسی کرتا ہے حتیٰ کہ نیتن یاہو نے ایران اور اسکے اتحادی شام اور لبنان کے خلاف خفیہ جنگ کو تیز کیا ہے۔ یہ اقدامات ایک ایسے حالات میں رونما ہو رہے ہیں جب اسرائیل ایک سماجی اور سیاسی اور سماجی آتش فشان کے اوپر بیھٹا ہوا ہے اور پورا مشرق وسطیٰ گہرے ہوتے ہوئے عالمی اقتصادی بحران، وبائی امراض، موسمیاتی تبدیلیوں اور یوکرین میں روس اور اسکے کے علاقائی اتحادیوں کے خلاف جنگ کو بڑھانے کے امریکی زیرقیادت منصوبوں کی وجہ سے عدم استحکام کا شکار ہے۔ امریکہ روس کے اتحادی ایران اور شام کے خلاف تل ابیب کے ساتھ ملکر جو اسکا خطے میں حملے کا اہم کتا ہے جنگ کو ہوا دے رہا ہے۔ اس نے آئی ڈی ایف کے چیف آف اسٹاف ہرزی حلوی کو متنبہ کرنے پر مجبور کیا کہ 'ایک مضبوط اور متحد دفاعی قوت' کے بغیر اسرائیل 'خطے میں ایک ملک کے طور پر مزید موجود نہیں رہ سکے گا۔'

یہ وہ خدشات ہیں جو نیتن یاہو کی عدالتی بغاوت کے خلاف اپوزیشن کے خود ساختہ رہنماؤں کو متحرک کر رہے ہیں—سابق وزراء، جرنیلوں اور سیکورٹی اور انٹیلی جنس سربراہان حزب اختلاف کے رہنما فلسطینیوں کے علاقوں پر اسرائیل کی سرحدوں کی توسیع کے لیے کم پرعزم نہیں ہیں لیکن انہیں خدشہ ہے کہ کھلی آمریت کا رخ اسرائیل کے کارپوریٹ اور مالیاتی اشرافیہ کے مفادات کو خطرے میں ڈالے گا اور نیتن یاہو سے 'سمجھوتہ' کرنے کی التجا کی ہے۔

اسرائیل نے طویل عرصے سے اپنی بقا کے لیے امریکہ کی جانب سے بڑے پیمانے پر اقتصادی اور فوجی مدد پر انحصار کیا ہے خاص طور پر 1967 میں عرب فوجوں کے خلاف اپنی کامیابی کے بدلے میں امریکی سامراج کے لیے مشرق وسطیٰ میں پولیس مین کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ اب ایک موثر پولیس مین ہونے کے بجائے نیتن یاہو کے اقدامات نے مشرق وسطیٰ میں عرب حکومتوں کے ساتھ اتحاد کو محفوظ بنانے کے لیے واشنگٹن کی طویل کوششوں کو نقصان پہنچایا ہے جس سے ایران کو تنہا کرنے اور کچلنے کے اس کے منصوبے کو خطرہ لاحق ہوا ہے اور یوکرین میں روس کے خلاف حقیقی جنگ نے اس کے جمہوریت کو برقرار رکھنے کے دعوے کی دھوکہ دہی کو بے نقاب کیا گیا ہے۔

مزید برآں اسرائیل اور پورے خطے میں طویل سماجی شورش کے امکانات نے بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو خوفزدہ کر دیا ہے مورگن اسٹینلے نے اپنے آزاد کریڈٹ کو 'ناپسندیدگی کے موقف' میں تبدیل کر دیا ہے اور موڈیز کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی نے اسرائیل کی معیشت اور سلامتی کو 'منفی نتائج' اور 'اہم خطرے' کی وارننگ دی ہے۔

اسرائیلی حکومت کی مخالفت میں وسیع پیمانے کی لہر نے ان لوگوں کے جھوٹے دعوؤں پر مزید روشنی ڈالی ہے جو اسرائیل پر تنقید کو یہود دشمنی سے تشبیہ دیتے تھے۔ اس نے فلسطینیوں پر اسرائیل کے جبر اور ریاست کے سامراجی حامیوں کے وسیع تر جنگی مقاصد کے مخالفین کو خاموش کرنے اور بدنام کرنے کے لیے بائیں بازو کی عالمی مہم کو نقصان پہنچایا ہے۔

اس نے ایک ہی وقت میں بائیکاٹ، انخلا اور پابندیوں کی مہم کے مرکزی اصول کی تردید کی ہے جس نے تمام اسرائیلیوں کو ان کی حکومت کے جرائم کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ احتجاجی تحریک کی صیہونی حامی قیادت کا حوالہ دیتے ہوئے متعدد جعلی بائیں بازو اور لبرل اشاعتوں نے اصرار کیا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ حریف صہیونی گروہوں کے درمیان تصادم ہے اور یہ کہ یہودی محنت کشوں کو فلسطینیوں کے ساتھ متحد جدوجہد سے کبھی نہیں جیتا جا سکتا کیونکہ وہ اس ' نوآبادیاتی ریاست' کے وفادار ہیں جو انہیں قیاس کے مطابق مراعات یافتہ وجود فراہم کرتی ہے۔

نیتن یاہو کے فاشسٹ ایجنڈے کے خلاف حقیقی سوشلسٹ مخالفت تیار کرنے میں پیچیدہ مسائل ہیں۔ لیکن محنت کش طبقے — اسرائیلی اور فلسطینی، یہودی، سیکولر، مسلمان اور عیسائی — کو معروضی طور پر حکمران طبقے اور اس کے ریاستی مشینری کے خلاف جدوجہد پر آمادہ ہیں۔

محنت کش طبقے اور اس کی نوجوان نسل کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسرائیل کی بنیاد سے لے کر اب تک کی تاریخ کے مرکزی سیاسی اسباق کو جذب کرے۔

صہیونی منصوبے کے مرکزی افسانوں کو ایک ایسا دھچکا لگا ہے جس سے وہ کبھی سمبھل نہیں پاہیں گے۔ ان کے پاس 'قومی اتحاد' پر اصرار کے سوا کچھ نہیں بچا جس پر صیہونیت قائم ہے۔ یہ دعویٰ کہ 75 سال قبل فلسطینیوں کی زبردستی بے دخلی کے ذریعے اس کا قیام نازی جرمنی اور ہولوکاسٹ کی ہولناکیوں کے بعد یہودیوں کے لیے ایک جمہوری پناہ گاہ فراہم کرے گا۔

صیہونیت 19ویں صدی میں ایک دائیں بازو کی نسل پرستانہ تحریک کے طور پر ابھری جس کی بنیاد یہودی سرمایہ دارانہ ریاست کے قیام کو جواز فراہم کرنے کے لیے نسلی، مذہبی اور لسانی علیحدگی پسندی کے مخصوص تصورات پر مبنی تھی۔ روشن خیالی اور پھر سوشلسٹ تحریک میں گہرائی سے جڑے لوگوں میں اس کے اثر و رسوخ کی نشوونما اس تباہی کی وجہ سے تھی جس نے 1930 اور 1940 کی دہائیوں میں یورپی یہودیوں پر حملہ کیا جس کا اختتام نازی ہولوکاسٹ میں 6 ملین یورپی یہودیوں کی ہلاکت پر ہوا۔ فاشزم کے ہاتھوں یورپی محنت کش طبقے کی اس شکست کو سوویت یونین اور کمیونسٹ انٹرنیشنل کے سٹالنسٹ انحطاط اور سوویت بیوروکریسی کی عالمی سوشلزم کی جدوجہد سے غداری کے ذریعے سہولت فراہم کی گئی۔

صیہونیت نے سیاسی طور پر یہودیوں کے درمیان وسیع سیاسی مایوسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے برطانیہ کے زیر کنٹرول فلسطین میں ہجرت کے ذریعے یہودی ریاست کے قیام پر زور دیا۔ اسرائیل کا قیام 1948 میں تقریباً دس لاکھ فلسطینیوں کو زبردستی اور وحشیانہ بے دخل کرنے اور ان کی زمینوں پر قبضے کے ذریعے عمل میں لایا گیا تھا۔

اس بنیاد پر قائم ہونے والی ریاست اور فلسطینیوں پر جاری جبر کی وجہ سے ایک حقیقی جمہوری معاشرہ تشکیل دینے سے قاصر رہا ہے۔ امریکی سامراج کے لیے ایک گیریژن ریاست کے طور پر اس کا ارتقا اپنے عرب پڑوسیوں کے ساتھ بار بار جنگ میں اور فلسطینیوں کے ساتھ مسلسل جنگ اور توسیع پسند 'گریٹر اسرائیل' کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے مقبوضہ علاقوں میں دائیں بازو کے آباد کاروں کی آبادی پر مزید مضبوطی سے انحصار کرتے ہوئے اور دنیا میں سب سے زیادہ سماجی عدم مساوات کی شدید سطح کے غیر مستحکم ہونے والے اثرات کو دور کرنے کے لیے امریکی فوجی امداد اور سبسڈیز نے نیتن یاہو کی حکومت کے فرینکنسٹائن عفریت کے لیے راہ ہموار کی ہے۔ 

حالات اب ایک نتیجہ خیز جدوجہد کے لیے تیار ہیں جس کا مقصد تمام محنت کش طبقے، یہودیوں اور فلسطینیوں کو ان کے مشترکہ جابر کے خلاف متحد سوشلسٹ جدوجہد کے لیے جیتا جائے۔ اس نقطہ نظر کا دفاع صرف اور صرف چوتھی انٹرنیشنل نے کیا جس کی نمائندگی آج بین الاقوامی کمیٹی کر رہی ہے۔

مظاہروں کی جاری لہر کے آغاز میں ورلڈ سوشلسٹ ویب سائٹ نے 1947 میں اقوام متحدہ کی جانب سے فلسطین کی تقسیم پر چوتھی انٹرنیشنل طرف سے دور اندیش پیشگی ردعمل کی طرف توجہ مبذول کرائی جس کی وجہ سے اسرائیل کی تخلیق ہوئی، ایک بیان میں جسکا عنوان ' آگینسٹ دی اسٹریم.' نے خبردار کیا:

چوتھی انٹرنیشنل یہودی سوال کے 'صیہونی حل' کو یوٹوپیائی اور رجعت پسندی کے طور پر مسترد کرتی ہے۔ یہ اعلان کرتا ہے کہ صہیونیت سے مکمل دستبرداری یہودی محنت کشوں کی جدوجہد کو عرب محنت کشوں کی سماجی، قومی اور آزادی پسند جدوجہد کے ساتھ ملانے کی ضروت ہے۔

تقسیم عرب اور یہودی اور عرب مزدوروں کے درمیان ایک تقسیم پیدا کرتی ہے۔ صہیونی ریاست اپنی اشتعال انگیز حد بندیوں کے ساتھ دونوں طرف سے غیر جانبدارانہ (انتقام) کی تحریکوں کو جنم دے گی۔ ایریٹز اسرائیل (اسرائیل کی سرزمین) کی تاریخی سرحدوں کے اندر ایک 'عرب فلسطین' اور 'یہودی ریاست' کے لیے لڑائی ہوگی۔ نتیجتاً اس طرح پیدا ہونے والا شاونسٹ ماحول مشرق وسطیٰ میں عرب دنیا میں زہر گھول دے گا اور عوام کی سامراج مخالف لڑائی کا گلا گھونٹ دے گا جب کہ صیہونی اور عرب جاگیردار سامراجی مفادات کے لیے لڑیں گے۔

ڈبلیو ایس ڈبلیو ایس نے وضاحت کی:

صہیونیت کی بند گلی ان تمام قومی تحریکوں اور ان ریاستوں کی ناکامی کا صرف ایک مظہر ہے جو انہوں نے محنت کش عوام کو درپیش کسی بھی بنیادی سوال کو حل کرنے کے لیے بنائی ہیں۔ یہی مسائل خطے کے تمام لوگوں کے سامنے ہیں، جہاں محنت کش طبقے کو سماجی عدم مساوات کی بھیانک سطح کے دوران بورژوا حکمرانی کی ظالمانہ جابرانہ شکلوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

نہ ہی مخالفت کے بھڑکنے میں کوئی انوکھی بات ہے۔ اسرائیل سری لنکا سے لے کر فرانس تک محنت کش طبقے کی عالمی سرکشی کے دور رس سیاسی نتائج کا ایک اہم اظہار ہے۔

دوسری جگہوں کی طرح اسرائیل کی حکمران اشرافیہ کی طرف سے آمریت کی جانب موڑ بنیادی طور پر سماجی عدم مساوات کی انتہائی بلندی اور جنگ کے بڑھنے میں ہے جو کہ اس کی موت کی اذیت میں سرمایہ داری کی جڑواں پیداوار ہیں۔ اسے حریف سرمایہ دار دھڑوں کے درمیان ’’مذاکرات‘‘ کے ذریعے نہیں بلکہ پوری دنیا میں پھیلتی ہوئی طبقاتی جدوجہد کو سوشلزم کے لیے ایک شعوری سیاسی تحریک میں تبدیل کرکے روکا جائے گا۔

محنت کشوں اور نوجوانوں کو درپیش اہم کام آزاد اور خود مختار انقلابی پارٹیوں کا قیام عمل میں لانا بطور آئی سی ایف آئی کے سیکشنز کے بشمول اسرائیل-فلسطینی سیکشن کی تعمیر کے لیے جو صہیونی ریاست اور عرب بورژوا حکومتوں کو ختم کرنے اور مشرق وسطی میں ایک متحدہ سوشلسٹ ریاست کی تعمیر کے لیے سیاسی قیادت فراہم کر سکیں۔

Loading