یہ 8 جولائی 2023 میں انگریزی میں شائع 'Sending cluster bombs to Ukraine, Washington makes clear it will stop at nothing' ہونے والے اس ارٹیکل کا اردو ترجمہ ہے۔
جمعہ کے روز بائیڈن انتظامیہ نے کہا کہ وہ یوکرین کو کلسٹر گولہ بارود بھیجے گا۔ ہتھیار جو نہ پھٹنے والے بموں کو وسیع علاقے میں بکھیرتے ہیں کئی دہائیوں تک شہریوں کو ہلاک اور معذور کرنے کا باعث بنتے ہیں۔
کیف کے فوجی حملے کی ناکامی کا سامنا کرتے ہوئے ریاستہائے متحدہ میدان جنگ میں اپنی ناکامیوں کو پلٹنے کے لیے پہلے سے زیادہ تباہ کن اور اندھا دھند ہتھیاروں کی فراہمی کو استعمال کرنے کی شدت سے کوشش کر رہا ہے۔
فیصلہ کن طور پر یہ اعلان ایک ایسے موقع سے پہلے کیا گیا ہے جب اگلے ہفتے ولنیئس میں نیٹو کا سربراہی اجلاس منعقد ہو رہا ہے جس میں امریکہ اور نیٹو جنگ میں اپنی شمولیت کو بڑے پیمانے پر بڑھانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ اپنی غلط فہمیوں کو ایک کونے میں دھکیل کر بائیڈن انتظامیہ مزید سخت اقدامات کرنے پر مجبور ہے۔
کلسٹر بموں کے استعمال کے فیصلے کا مقصد شہریوں پر اس کے طویل مدتی اثرات سے قطع نظر زیادہ سے زیادہ روسی فوجیوں کو ہلاک کرنا ہے۔ وہ دلیل جو ماضی میں اورنج مادہ اور نیپلم کے استعمال کی طرف اُٹھائی گی تھی اور اب اسے ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی منظوری کے لیے استعمال کیا جائے گا یہ عمل فی الحال جاری ہے۔
امریکہ ولنیئس کے موقع پر واضح طور پر روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو پیغام بھیج رہا ہے۔ نیٹو کسی بھی صورت میں بھی پیچھے نہیں جائے گا۔
جمعہ کو ایک بریفنگ میں اس اقدام کا اعلان کرتے ہوئے امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے فوجی تباہی کو روکنے کے لیے یوکرین کو کلسٹر گولہ بارود بھیجنے کے فیصلے کو درست قرار دیا۔
'اگر روسی فوجیوں اور ٹینکوں نے یوکرین کی پوزیشنوں پر حملہ کیا اور یوکرین کے مزید علاقوں پر قبضہ کر لیا اور یوکرین کے زیادہ شہریوں کو زیر کر لیا تو شہریوں کو نقصان پہنچنے کا بھی بڑا خطرہ ہے کیونکہ یوکرین کے پاس کافی توپ خانہ نہیں ہے۔'
سلیوان نے یہ بیان یوکرین کی جانب سے موسم بہار کی کارروائی شروع کرنے کے ایک ماہ بعد دیا جسے امریکی پریس نے 'یوکرین کے لیے اختتامی گیم ' قرار دیا تھا جس کے نتیجے میں ریٹائرڈ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کے الفاظ میں اسے 'اہم پیش رفت' کہا تھا۔
اس کے بجائے جارحیت نے ایک خونی شکست کو جنم دیا ہے۔ روس کو زبردست شکست دینے سے کوسوں دور بائیڈن انتظامیہ نے یوکرائنی فوج کو آگے بڑھانے کی کوشش میں ایک کے بعد ایک تیز رفتار حرکت کو عملی کیا ۔
سلیوان نے کہا کہ 'ہمیں علم ہے کہ کلسٹر گولہ بارود نہ پھٹنے والے ہتھیار شہری نقصان کا خطرہ پیدا کرتے ہیں۔' 'لیکن ہمیں اس خطرے کے خلاف توازن رکھنا تھا' کیونکہ یوکرین کے پاس ' کافی توپ خانہ نہیں ہے۔'
دوسرے سادہ لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے مزید روسی فوجیوں کو مارنے کے فائدے میں یوکرین کے شہریوں کے قتل اور نسلوں کو معذور کرنے کی قیمت کے وزن کے موازنے کا مقابلہ کیا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ بغیر پھٹنے والے ہتھیاروں سے یوکرائنی بچوں کی ہلاکت ایک ایسی قربانی تھی جو امریکہ کی اشرافیہ دینے کے لیے تیار تھی۔
مکمل بے حسی میں ڈوبے ہوئے سلیوان نے مزید کہا کہ یوکرین کو ' اس سے قطع نظر بارودی مواد سے پاک ہونا پڑے گا۔'
یوکرین کو دہشت گردی کے ان ہتھیاروں کو بھیجنے کا جواز پیش کرنے کے لیے وائٹ ہاؤس کی طرف سے ہر وہ چیز کو تنازعے میں استعمال کی جانب لے جائے گا خواہ وہ ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کی تعیناتی ہی کیوں نہ ہو یا یہاں تک کہ اس سے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ہاں وائٹ ہاؤس یہ ضرور دلیل دے گا جوہری نتیجے کا امکان عام شہریوں کے لیے خطرہ ہے لیکن یہ خطرہ روسی فوجی پیش قدمی کے خطرے کے خلاف ' مساوی ' ہونا چاہیے۔
یوکرین میں امریکی ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کی تنصیب کا معاملہ پہلے ہی ایک امریکی تھنک ٹینک نے براہ راست اٹھایا ہے۔ مزید برآں تنازع میں جوہری ہتھیاروں کی تعیناتی اور ممکنہ استعمال بلاشبہ ولنیئس میں ہونے والی آئندہ سربراہی کانفرنس میں ایجنڈے میں شامل ہوگا۔
جنگ میں اس کی شمولیت کے بارے میں ریاستہائے متحدہ کا ہر سرکاری بیان اس بنیاد پر استوار کیا جاتا ہے کہ وہ برحق ہے کہ وہ ایک بار پھر فوجی تشدد کے ذریعے ایک ملک کو 'بچا رہا ہے'۔ اس مرتبہ یوکرین کو مگر کلسٹر بم اور تخفیف شدہ یورینیم ہتھیار بھیج کر امریکہ نے واضح کر دیا ہے کہ یہ 'عظیم طاقت کے مقابلے' میں اور روس اور چین کے خلاف اور ان پر غالب آنے کے اپنے مقصد کے حصول کے لیے اسکی یہ دلیل کھوکھلے بہانے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
روس کے یوکرین میں کلسٹر بموں کے مبینہ استعمال کی مذمت جن الفاظ میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے کی تھی اب یہ الفاظ یوکرین کو یہ ہتھیار بھیجنے کے امریکی فیصلے پر پوری طرح لاگو ہوتے ہیں۔
فروری 2022 میں اقوام متحدہ میں امریکی مندوب لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے روس پر یوکرین میں 'کلسٹر گولہ بارود' استعمال کرنے کا الزام لگایا کہ 'جو جنیوا کنونشن کے تحت ممنوع ہیں' اور 'میدان جنگ میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔'
مارچ 2022 میں نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز سٹولٹن برگ نے کہا 'ہم نے کلسٹر بموں کا استعمال دیکھا ہے. جو کہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہو گی۔' انہوں نے مزید کہا 'ہمیں یہ بھی یقینی بنانا ہوگا کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت واقعی اس پر سنجیدگی سے غور کرے۔'
درحقیقت امریکہ اور نیٹو کی طرف سے روسی اقدامات کی یہ تمام مذمت جنگ میں امریکہ کی شمولیت کو بڑھانے کے محض منافقانہ بہانے تھے۔
یوکرین کو کلسٹر بم بھیجنے کا امریکہ کا فیصلہ یوکرین کی جنگ میں امریکی مداخلت کے تمام جعلی بائیں بازو کے محافظوں کو بے نقاب کرتا ہے بشمول امریکہ کے ڈیموکریٹک سوشلسٹ ہیں جو امریکی فوج کے جنگی جرائم کے لیے 'امریکی سامراج سے قبل از وقت دشمنی' کی مذمت کرتے ہیں۔
درحقیقت یوکرین میں روس کے خلاف امریکی قیادت میں جاری جنگ امریکی عالمی تسلط کی جنگ ہے جس میں یوکرین کے باشندے محض توپوں کا چارہ ہیں۔ یہ مکمل طور پر پچھلی نصف صدی کے دوران امریکہ کی طرف سے جارحیت کی مجرمانہ جنگوں کے ایک سلسلے کی کڑی ہے۔
ویتنام جنگ کے دوران امریکہ نے کمبوڈیا، لاؤس اور ویت نام میں تقریباً 413,130 ٹن کلسٹر بم گرائے۔ ان میں سے بہت سے ہتھیار پھٹنے میں ناکام رہے اور جنگ کے خاتمے کے کئی دہائیوں بعد شہری آبادیوں کے لیے ایک اہم خطرہ بنتے رہے جس کے نتیجے میں لاتعداد افراد زخمی اور موت کی آغوش میں سو گے۔
2003 میں عراق پر امریکی قیادت میں حملے کے دوران امریکہ نے شہری علاقوں پر حملہ کرنے کے لیے باقاعدگی سے کلسٹر گولہ بارود کا استعمال کیا جسے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 'اندھا دھند حملہ اور بین الاقوامی انسانی قانون کی سنگین خلاف ورزی' قرار دیا۔
عراق میں کلسٹر بموں کی تباہی میں یورینیم کے تخفیف شدہ گولہ بارود کے استعمال کی وجہ سے اضافہ ہوا جس کی وجہ سے ایک تحقیق کے مطابق فلوجہ کے لوگوں کو کینسر، لیوکیمیا، بچوں کی اموات اور جنسی تغیرات کی شرح میں زندہ بچ جانے والوں کو اسکا بڑے پیمانے پر سامنا کرنا پڑا۔ ہیروشیما اور ناگاساکی کے بعد کے سالوں میں ان جاپانی شہروں کو 1945 میں امریکی ایٹم بموں سے جلا دیا گیا تھا۔
افغانستان پر 2001 کے حملے کے دوران کلسٹر بموں نے سینکڑوں شہریوں کو ہلاک اور زخمی کیا اور دیہی علاقوں کو مہلک نہ پھٹنے والے ہتھیاروں سے بھر دیا۔ امریکہ یمن تنازع میں سعودی زیر قیادت افواج کی حمایت کے ذریعے کلسٹر گولہ باری کے استعمال میں ملوث رہا ہے۔
110 سے زیادہ ممالک نے کلسٹر گولہ بارود کے کنونشن (سی سی ایم) کی توثیق کی ہے جس میں کلسٹر گولہ بارود کے استعمال منتقلی اور ذخیرہ کرنے پر پابندی ہے۔ امریکہ جس نے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں کلسٹر گولہ بارود سے زیادہ لوگوں کو ہلاک کیا ہے اس کنونشن کا دستخط کنندہ نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کی 2008 کی ایک رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ کلسٹر گولہ بارود کے تباہ کن اثرات ان آبادیوں پر پڑتے ہیں جہاں وہ ریاستہائے متحدہ اور اس کے اتحادی استعمال کرتے ہیں:
لاؤس اور ویتنام میں کلسٹر گولہ بارود کے استعمال کے تین دہائیوں سے زائد عرصے بعد بھی وہاں اموات اور زخمی ہونے کے ساتھ عام لوگوں کی معاشی سرگرمیوں میں خلل ڈالنے اور وہاں ترقیاتی منصوبوں کے نفاذ میں رکاوٹ بنتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ تیزی سے بڑے پیمانے پر کلیئرنس کی کوششیں کی جائیں جیسے کہ کوسوو اور لبنان میں لاگو کی گئی ہیں کلسٹر گولہ بارود کی آلودگی کو اثر انداز ہونے سے نہیں روک سکتیں۔ کوسوو میں کلسٹر گولہ بارود سے شہری ہلاکتوں کی اب بھی اطلاع دی جا رہی ہے اور لبنان میں 2006 کے تنازعے کے فوراً بعد کلیئرنس شروع ہونے کے باوجود یہ آبادیوں میں ہلاکتوں کو نہیں روک سکیں کیونکہ وہ روزگار کے لیے اپنے گھروں اور معاشی زندگی کی جانب لوٹ رہے تھے۔
رپورٹ مزید کہتی ہے:
ہتھیار ڈالنے سے پناہ گزینوں اور اندرونی طور پر بے گھر افراد (آئی ڈی پیز) کی محفوظ واپسی کو روکا جا سکتا ہے اور انسانی ہمدردی، قیام امن اور ترقی کی کوششوں میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے۔ نہ پھٹنے والے کلسٹر گولہ بارود بھی انسانی ہمدردی کے کارکنوں اور امن فوجیوں کے لیے ایک جسمانی خطرہ ہیں۔
وائٹ ہاؤس کا دعویٰ ہے کہ اس نے انتہائی احتیاط کے ساتھ اس اقدام پر بات چیت اور غور و خوض کیا ہے۔ فیصلہ سازوں کو کلسٹر گولہ بارود کے ان معلوم نتائج کے بارے میں مکمل طور پر آگاہ کر دیا گیا ہو گا اور ان مہلک اثرات سے قطع نظر وہ اسے استمعال کرتے ہوئے آگے پیش رفت کریں گے۔
بائیڈن کے ہتھیار بھیجنے کے فیصلے کی اطلاع دیتے ہوئے نیویارک ٹائمز نے لکھا کہ 'مسٹر بائیڈن یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے مسلسل دباؤ میں آئے ہیں جن کا کہنا ہے کہ جنگی سازوسامان جو چھوٹے مہلک بموں کو منتشر کرتے ہیں روسیوں کو مارنے کا بہترین طریقہ ہیں جو خندقوں میں پوزیشنز سنبھالے ہوئے ہیں اور یوکرین کے علاقے کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے جوابی کارروائی کو روک رہے ہیں۔
ہتھیار بھیجنے کے فیصلے کو فروغ دینے میں زیلنسکی کا کردار جو یوکرائنی بچوں کو نسلوں تک معذور کر دے گا اس کی حکومت کے کردار کا خلاصہ ہے جو یوکرائنی آبادی پر نیٹو طاقتوں کی مرضی کو نافذ کرنے میں ایک آلہ اور بھاڑے کا ٹٹو کے طور پر کام کرتا ہے۔
امریکہ کے اس تازہ ترین اقدام کو ایک انتباہ کے طور پر لینا جانا چاہیے۔ واشنگٹن کیف میں اپنی پراکسی فورس کو مزید فوجی پسپائی سے روکنے اور روس کو اسٹریٹجک شکست دینے کے اپنے فوجی اہداف حاصل کرنے کے لیے کسی بھی خطرناک ترین اقدام سے باز نہیں آئے گا۔ وہی قاتل منطق جو تخفیف شدہ یورینیم راؤنڈز اور کلسٹر بموں کی تعیناتی کا جواز پیش کرتی ہے وہ اس سے بھی بڑے اور زیادہ لاپرواہ جرائم یعنی کہ جوہری ہتھیاروں کی تعیناتی اور استعمال کے جواز کے طور پر پیش کرتے ہوئے جنگ میں نیٹو کے براہ راست داخلے کی منطق پر استوار کی جائے گی۔