۔حکمت عملی کے حوالے سے محنت کشوں کے لئے زبردست تجربہ: ستمبر2015کا الیکشن جس میں وزیراعظم الیکس سپراس کی قیادت میں سیریزا(انقلابی بائیں بازو کا اتحاد)نے دوبارہ اقتدار سنبھالاایک ایسے مخصوص دور کا خاتمہ ظاہر کرتا ہے جس میں طریقہ کار کے حوالے سے محنت کشوں کے لیے زبردست اسباق موجودہیں۔
جنوری میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد سیریزانے یورپی یونین کے سخت گیر معاشی اقدامات یعنی اسٹریٹی(سماجی سہولیات میں کٹوتیوں اور نج کاری کا عمل) کی مخالفت کا بیڑا اٹھایا تھا ۔یورپی یونین کے وحشیانہ معاشی حملوں کی وجہ سے یونان محنت کشوں کے معیارِزندگی اور بنیادی حقوق پر ہونے والے عالمی حملوں کا مرکز بن کہ رہ گیا تھا جس کا آغاز2008کے معاشی بحران سے ہوا،جسکے باعث لاکھوں کروڑوں بین الاقوامی محنت کشوں اور نوجوانوں نے یونانی محنت کشوں کی جدوجہد کا بغورمشاہدہ کیا۔میڈیا کوریج،سیریزاپر یورپی یونین کے رجعتی سیاست دانوں کی طرف سے ہونے والی تنقید اورسیریزاکے اپنے بیانات کی وجہ سے لوگوں کی اکثریت یہ یقین کرنے لگی کہ الیکس سپراس اور اسکا وزیرِخزانہ یانس ویروفکاس ایسے زبردست طوفان ہیں جو یونانی اور بین الا قوامی سرمایہ داری کو پھونک کے رکھ دیں گے۔
یونان کے اندر اور باہر بہت ساری بزعمِ خود ’سرمایہ داری مخالف ‘ یا ’ بائیں بازو کی پارٹیوں نے سیریزا کے اقتدار کو بائیں بازو کی فتح او ر بین الاقوامی طور پر سخت گیر معاشی پالیسیوں کے خلاف جدوجہد کے لئے ایک ماڈل کے طور پر خوش آمدید کہا۔
تاہم الیکشن کے بعد آنے والے آٹھ ماہ میں سیریزانے اپنے انتخابی وعدے پاوُں تلے روند کے رکھ دئیے۔اقتدار میں آنے کے چند ہی ہفتوں بعد فروری میں یورپی یونین کے سخت معاشی اقدامات کو جاری رکھنے کا معاہدہ کر کے اس نے جولائی میں منعقد کروائے گئے ریفرینڈم کے ’ ’ نو ‘‘ کے پاپولر ووٹ کو رد کرتے ہو ئے پارلیمینٹ میں زبردستی نئے سخت معاشی اقدامات کو متعارف کروایا۔
اس پاپولر جمہوری رائے کی کھلی خلاف ورزی نے عوام کو ششدر کر کے رکھ دیا۔ ستمبر میں ہو نے والے عام انتخابات میں الیکس سپراس نے دائیں بازو کی نئی جمہوریت نامی پارٹی این ڈی(ND) کے خلاف بمشکل فتح حاصل کی جبکہ اس الیکشن میں سیریزاکو یورپی یونین اور بینکوں کی حمایت حاصل تھی۔ دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سیریزانے انہی سخت گیر معاشی پالیسیوں کے نفاذ کا آغاز کر دیا جنکے باعث پہلے ہی لاکھوں لوگ غربت ، بیروزگاری اور بھوک کا شکار ہو چکے ہیں۔
اب لوگوں کی اکژیت ان سیاسی پارٹیوں کی غداری اور سیاسی دیوالیہ پن سے آگاہ ہو رہی ہے جوکہ احتجاجی تحریکوں کے دوران پیش پیش تھیں اور جنہوں نے تقریبََا تمام تر تاریخی عرصے میں خود کو بائیں بازو کے پیشوا کے طور پر منوایا تھا۔پوسٹ ماڈرن ازم کے نظریے کے حامی ارنیسٹولیکلاؤ(Ernsto Laclau) جیسے اکیڈمیز کی طرح ان تنظیموں نے موجودہ دور کو ’’ بعد از مارکسسزم ‘‘(Post-modernism) کا دور قراردیاہے۔ درمیانے طبقے کے خوشحال حصوں سے تعلق رکھنے والے ان لوگوں کا اصرار ہے کہ محنت کش اب انقلابی قوت نہیں رہے بلکہ ان کی جگہ اب مختلف سماجی شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے لے لی ہے جنکا تعین قومیت،نسل یا رہن سہن کی بنیاد پر ہوتا ہے۔
کئی دہائیوں تک ان پارٹیوں نے انقلابی ہونے اور سرمایہ داری کا مخالف ہونے کا ڈھونگ کیا جبکہ حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہ تھا۔ اقتدار میں ان کے پہلے تجربے نے انکا پول کھول کہ رکھ دیا کہ انکی حیثیت ایک ایسے دھوکہ باز سے بڑھ کر کچھ نہیں جسکا کام چھپ چھپا کے محض اوپر والے دس فیصدلوگوں کے مفادات کا اکژیتی طبقے کا استحصال کرتے ہوئے تحفظ کرنا ہے۔
ستمبر میں الیکشن کے بعد اپنے دورہِ امریکہ کے دوران سپراس نے بے تکلفی کے ساتھ اپنے طویل المدتی سرمایہ دارانہ ایجنڈے کا اظہار بھی کر دیا تھا۔ نیویارک میں کلنٹن انسٹیٹوٹ ادارے میں سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے ایک سوال کے جواب میں سپراس نے کہا’’ ہم غیرملکی سرمایہ کاروں کو خوش آمدید کہتے ہیں جنکو یونان میں ایسی حکومت ملے گی جسے ملک میں تبدیلی لانے کے لیے عوامی حمایت حاصل ہے....... میری رائے اور خواہش کے مطابق آئیندہ چند سالوں میں یونان سرمایہ کاروں کے لیے جنت سے کم نہیں ہو گا‘‘۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر الیکس سپراس کس طرح غیرملکی سرمایہ کاروں کو اپنی جانب راغب کر پائے گا؟ سریزا کو اُمید ہے کہ یورپ میں محنت کشوں پر ہونے والے وحشیانہ حملوں کے ساتھ ساتھ اُسکی طرف سے لوگوں کے معیارِزندگی میں کی جانے والی کٹوتیوں کی وجہ سے بیرونی اور ملکی سرمایہ کاروں کی رسائی یورپ کی سب سے سستی ،استحصال زدہ مگر منافع بخش افرادی قوت تک ہو سکے گی۔
الیکس سپراس کا پروگرام لوگوں کے اُن بنیادی حقوق پہ حملوں پرمبنی ہے جن سے کئی نسلوں سے مغربی یورپ کے محنت کش لطف اندوز ہورہے ہیں۔ یونان میں مالکان کو محنت کشوں کی صحتِ عامہ پر اخراجات کرنے سے مستثنیٰ کر دیا گیا ہے۔ سیریزا کی طرف سے ہونے والی پینشن کٹوتیاں ایک جامع منصوبے کا حصہ ہیں جس پر میڈیا میں بھی بات ہوچکی ہے جسکے مطابق آئیندہ محنت کشوں کو ملنے والی پینشن ریاست کی طرف سے نہیں ہو گی بلکہ خود اُنکو اِ س میں اپنا حصہ ڈالنا ہو گا۔یونان میں کم ہوتی ہوئی محنت کش کی ماہانہ 683 یورو کی اوسط آمدنی اب یورو زون میں شامل ہالینڈ یا فرانس جیسے امیر ممالک کے محنت کشوں کی بجائے چین یا غریب ترین مشرقی یورپ کے ممالک میں محنت کشوں کو دی جانے والی ماہانہ اجرت کے قریب ترین ہے۔
سریزا کا تجربہ اِس بات کا غماض ہے کہ سوشلسٹ نظریہ رکھنے والے دانشوروں،نوجوانوں اور محنت کشوں کو اپنی از سرِ نو صف بندی کرنی ہو گی۔1930کے بعد کے بدترین معاشی بحران اور وحشیانہ سرمایہ دارانہ حملوں کا شکار محنت کش طبقہ محض نئی ’’بائیں بازو ‘‘ کی سرمایہ دارانہ حکومتوں کو منتخب کروا کے نجات نہیں پا سکتا۔
آگے بڑھنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ یونان کے محنت کش طبقے کو ایک انقلابی پالیسی اختیار کرتے ہوئے عالمی تحریکوں سے منسلک کر کے متحرک کیا جائے۔تمام بڑے بینکوں، ذرائع پیداوار اور سرمائے پر قبضہ کر کے انہیں محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دیا جائے تاکہ نہ صرف یورپ بلکہ پوری دنیا میں مزدور ریاستوں کی تشکیل کی جاسکے۔لیکن اس طرح کی جدوجہد کے لئے ایسی مارکسی پارٹیوں کی ضرورت ہوتی ہے جو سیریزا جیسی پارٹیوں کے خلاف محنت کشوں کی انتھک جدوجہد کی قیادت کر سکیں۔
یہی فورتھ انٹرنیشنل کی بین الاقوامی کمیٹی (آئی سی آئی ایف) کی بنیادی اہمیت ہے جو سیریزاجیسی جھوٹی بائیں بازو کی پارٹیوں کے خلاف ٹراٹسکی ازم کے تسلسل کا دفاع کرتی ہے۔آئی سی آئی ایف ہی وہ واحد گروپ تھا جس نے عالمی محنت کشوں کو متنبہ کیا تھا کہ سیریزا کوئی انقلابی پارٹی نہیں بلکہ سرمایہ داری کی حامی اور مزدور دشمن پارٹی ہے جو سخت گیر معاشی اقدامات کو ختم کرنے کے اپنے وعدوں سے مکر جائے گی۔ وقت نے سیریزا پر آئی سی آئی ایفکی طرف سے ہونے والی تنقید کو سچ ثابت کر دیا۔
سپراس کے ریکارڈنے ثابت کر دیا کہ آئی سی آئی ایفکی طرف سے ہونے والی مخالفانہ جدوجہد محض دو گروہوں کے درمیان ہونے والی طریقہِ کا ر کی لڑائی نہیں بلکہ دو ناقابلِ مصا لحت مفادات کے حامل طبقات کی لڑائی ہے۔جہاں ایک طرف سیریزا محنت کشوں کو مالی سرمائے اور یونانی سرمایہ داروں کی خواہشات سے ہم آہنگ کرنے میں کوشاں ہے وہیں دوسری طرف (ICFI)محنت کشوں کے انقلابی تناظر کے لئے لڑائی لڑ رہی ہے۔
2 ۔Syrizaکی غداری کے لیے جواز کی فراہمی اور اُس کی پردہ داری: اسٹریٹی پالیسیوں کے خلاف ان تھک جدوجہد کا پہلا قدم سیریزا اور اسکے اتحادیوں کی طرف سے سپراس کو فراہم کی جانے والی عذر داریوں کا رد کیے جانا ہے۔ وہی تمام قوتیں جو آٹھ ماہ پہلے سیریزا کی انتخابات میں کامیابی کو سخت گیر معاشی پالیسیوں کے خلاف آگے کے قدم سے تعبیر کر رہی تھیں وہی اب موجودہ واقعات کی اہمیت کو چھپانے میں سر دھڑ کی بازی لگا رہی ہیں۔
ان میں سے چند ایک اب بھی سیریزا کو اسکے تمام تر اقدامات کے باوجود ایک بائیں بازو کی انقلابی پارٹی کی حیثیت سے سراہ رہی ہیں۔جرمنی کی بائیں بازو کی پار ٹی (دی لیفٹ پارٹی) نے سیریزا کو دوبارہ کامیابی پر یہ کہہ کر مبارکباد دی کہ موجودہ بحران کے دوران یونانی عوام نے فیصلہ کر دیا ہے کہ پرانی بدعنوان پارٹیوں کے مقابلے میں ایک بائیں بازو کی حکومت بہتر ہے۔
جبکہ دوسرے دھڑوں کا ردِعمل حوصلہ شکن بھی ہے جنکا کہنا ہے کے موجودہ معاشی بحران میںیورپی یونین کی خواہشات پر سرنِگوں کر نے کے علاوہ سیریزاحکومت کے پاس اور کوئی راستہ ہے ہی نہیں لہذٰاان کی موجودہ پالیسیوں کوعوام کی امنگوں سے غداری نہیں کہا جاسکتا۔
کنگ کالج لندن کے فلسفے کے پروفیسر سٹیتھز کوالیکس(Stathis Kouvalekis) کا بھی یہی موقف ہے جو سیریزاکے لیے لیفٹ پلیٹ فارم نامی دھڑے (موجودہ پاپولر یونٹی پارٹی ) کا بانی رکن ہے۔برطانیہ میں سوشلسٹ ورکرز پارٹی (SWP)کی ایک میٹنگ میں خطاب کرتے ہوئے اس نے کہا’’ میرے خیال میں یونان میں جو ہوا اگر ہم اسے بہتر سمجھ سکیں تو اسکے لیے غداری مناسب لفظ نہیں اگرچہ معروضی طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عوامی اکثریتی رائے سے غداری ہوئی ہے اور لوگ یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ ان سے دھوکہ کیا گیاہے۔ تاہم غداری کا لفظ عمومی طور پر وہاں استعمال ہوتا ہے جہاں آپ شعوری طور پر اپنے وعدوں کے خلاف کچھ کرتے ہیں جبکہ میرے خیال میں سپراس نے دیانت دارانہ طور پر ایک مثبت نتیجے کی امید میں یورپی یونین سے تعلقات استوار کیے اور یہ بات اس لیے بھی ٹھیک لگتی ہے کیونکہ اس نے بارہا یہ کہا کہ اس کے پاس کوئی اور متبادل لائحہ عمل ہی نہیں ہے‘‘۔
یہ سیریزا کے اقدامات کی اصلیت چھپانے کی ازحد بھونڈی کوشش ہے۔کوالیکس کس طرح سے تحریک کے طبقاتی تجزیے کی بجائے نفسیاتی مفروضات پیش کر رہا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ وہ اپنے سامعین سے اس بات کی امید بھی رکھتا ہے کہ وہ اُس کی اِس الف لیلوی داستان پر یقین بھی کریں گے کہ یورپی راہنماؤں کے سخت گیر معاشی اقدامات میں کوئی نرمی برداشت نا کرنے والے باربار کے بیانات کے باوجود سپراس کو مکمل یقین تھا کہ وہ ان کو قائل کر کے سخت گیر پالیسیوں کو ختم کروا پائے گاوہ بھی محض یہ اعلان کر کے کہ اس کے پاس اپنا کوئی لائحہ عمل ہے ہی نہیں ما سوائے یورپی یونین کی پالیسیوں کو اختیار کرنے کے۔
اسطرح کی وضاحت سے کسی چیز کی وضاحت نہیں ہوتی۔پہلی بات تو یہ ہے کہ جب سریزا اقتدار میں آئی تب تک اسے عملی سیاست میں آئے دو دہائیاں ہو چکی تھیں اور وہ کوالیکس کے داعوے کے برعکس سیاسی معصوم بالکل بھی نہیں تھی بلکہ اسکے نہ صرف مختلف ریاستوں کے سربراہوں سے بلکہ عالمی سرمایہ کاروں سے بھی ربطے بن چکے تھے۔تاہم اگر ہم ایک منٹ کے لیے فرض کر لیں کہ سپراس دنیا کا ناقابلِ یقین حد تک سادہ آدمی ہے تب بھی کوالیکس کی طرف سے کیا جانے والا سریزا کا دفاع یہ ثابت نہیں کرتا کہ جب یہ پکا پتہ تھاکہ یورپی یونین سخت گیر معاشی پالیسیوں پر مُصر ہو گی تو سپراس نے مکمل محکومی کی بجائے کوئی اور متبادل کیوں نہ سوچا؟
سپراس کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے والے طبقاتی رجحانات کو سمجھنا مشکل نہیں اس نے یورپی یونین اور نیٹوNATO)) کے ساتھ اتحاد برقرار رکھ کریورو کرنسی اور بینکوں کو تحفظ دے کر اصل میں محض دس فیصد پیسے والی یونانی اقلیت کے مفادات کی ترجمانی کی۔ سخت گیر معاشی پالیسیوں کے خلاف موجود مخالف اکثریت کو متحرک کرنے کا مطلب اس سرمایہ دارانہ ایجنڈے کا خاتمہ ہوتا جو سپراس نے ستمبر الیکشن کے بعد سے جاری کیا ہوا ہے۔
ان سب باتوں سے بڑھ کے سپراس جس نے جنوری میں آفس سنبھالاکے عزائم و خواہشات آخری تجزیے میں غیر متعلقہ اور غیر اہم ہیں کیونکہ عزائم کی بجائے فیصلوں کی اہمیت ہوتی ہے۔فروری میں یورپی یونین کے ساتھ سخت گیر معاشی پالیسیوں کے پروٹوکول پر دستخط،جولائی میں ریفرینڈم کے ’’ نو ‘‘کے اکثریتی ووٹ کو پاؤں تلے روندتے ہوئے ایک نیا سخت گیر معاہدہ اور آخرِکاراکتوبر میں انتہائی مزدور مخالف بجٹ پیش کرنا اسکی طرف سے یوروپی یونین کی سخت گیر معاشی پالیسیوں پر عمل پیرا ہونا ظاہر کرتا ہے۔ یہ تمام اقدامات سریزا کی الیکشن کمپین میں کیے جانے والے سخت معاشی پالیسیوں کے خاتمے کے وعدوں سے کھلم کھلا انحراف ہے۔
کوالیکس کی طرف سے سپراس کی غداری پر مبنی ریکارڈ کو چھپانے کی اس بھونڈی کوشش کا اصل مقصد محض یہ ہے کہ کہیں بائیں بازو سے اسکا متبادل نا آ جائے۔سوشلسٹ ورکرز پارٹی کی اسی میٹنگ میں کوالیکس نے کہا ،’’میں سیاسی جدوجہد میں فتح یا شکست کے مفہوم میں ایک زیادہ عمومی پہلو کا اضافہ کرنا چاہتا ہوں۔میری نظر میں ایک مارکسی کے لیے ان الفاظ کا تاریخی تنقیدی مفہوم واضح ہونا ازحد ضروری ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ سیاسی جدوجہد میں معتبر ٹھہرنے کا مطلب ایک لحاظ سے یہ کہنا ہی ہے کہ آپ درست ثابت ہوئے ہیں۔ یہ ’ دیکھا میں نے کہا تھا نا کہ ایسا ہی ہو گا ‘ جیسی پالیسی ہے۔ لیکن اگر آپ ٹھوس طریقے سے اپنی بات ثابت نا کر پاؤ تو اسکا مطلب ہے سیاسی طور پر شکست خوردگی‘‘۔
کوالیکس کا یہ پیغام بلا کا قنوطیت پسندانہ ہے۔ وہ بائیں بازو میں سریزا کے مخالفین کو کہہ رہا ہے کہ تمہاری تمام تر تنقید کے باوجود تم ہمیں غداری سے نہیں روک پائے۔ ہم جو اقتدار میں ہیں ہم نے اپنی رجعتی پالیسیاں جاری رکھیں اور تم لوگ جو ہماری تنقید کرتے ہویہ کہنے کہ علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتے کہ ’ ’ ہمیں پہلے ہی پتا تھا کہ ایسا ہی ہو گا‘‘۔
لیکن سریزا کی غداری کے سیاسی مضمرات ہوں گے خواہ کوالیکس جیسے معذرت خواہ اسے جھٹلانے کی جتنی بھی کوشش کریں۔ محنت کشوں کو جعلی بائیں بازو کے طبقاتی کردار کے بارے میں ایک تکلیف دہ اور ناقابلِ فراموش تجربہ حاصل ہوا ہے ۔ چوتھی انٹرنیشنل کی بین الا قوامی کمیٹی بلاجھجھک یہ موقف رکھتی ہے اور کہتی ہے کہ اسے سیاسی صورتحال کا درست ادراک ہے اور اس نے محنت کشوں کو اس بارے درست بتایاتھا۔یہی ایک طریقہ ہے جس سے ایک انقلابی رجحان محنت کش تحریک میں اپنی برتری ثابت کرتا ہے اور اسکی ایک سوشلسٹ انقلاب کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔صرف اور صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی یونانی محنت کش طبقہ سریزا اور دنیا کی دوسری رجعتی طاقتوں کے خلاف اپنا مکمل حساب چکا پائے گا۔
3۔ بین الا قوامی کمیٹی نے محنت کشوں کو سریزا کے بارے کسطرح سے خبردار کیا تھا آئی سی ایف آئی کی انٹرنیٹ پر ورلڈ سوشلسٹ ویب سائٹ WSWS))نے یونان کے 2009میں یونانی سوشلسٹ ڈیمو کریٹک پارٹی پوساک (PASOK) کے جارج پیپنڈرو(George Papendreo)کے اقتدار میں آنے کے بعد پھٹنے والے قرضوں کے بحران کا مکمل طور پر احاطہ کیا ہے۔ آغاز سے ہی آئی سی ایف آئی نے محنت کشوں کو متنبہ کیا کہ وہ سریزا میں یونان کی کمیونسٹ پارٹی کے کے ای (KKE)میں اینٹاریسیا( ANTARYSA)اور ان سے ملتے جلتے ایسے تمام گر وپوں جنکا رجحان پاسوک کیطرف ہے کوئی امید مت رکھیں ۔
مئی 2010میں پاسوک کیطرف سے سخت گیر معاشی پالیسیوں کے پہلے یونانی پیکج اختیار کیے جانے پر WSWSنے متنبہ کیا کہ’’ محنت کشوں کا آزادانہ سیاسی لائحہ عمل ان تمام ٹریڈیونینوں اور درمیانے طبقے کی تنظیموں سے براہِ راست متصادم ہے جو عوام کو غیر متحرک کر رہے ہیں۔ یونان میں ٹریڈ یونین اور انکے اتحادی سریزا اور کمیونسٹ پارٹی پپینڈرو کے ساتھ اتحاد کے قائل ہیں اور پپنڈرو پر اثر انداز ہونے کا تناظر ترویج دینے والے یہ گروہ اپنے باقی ساتھیوں کیطرح شعوری طور پر محنت کشوں کو ریاست ، قومی سیاست اور بینکوں کے سخت معاشی پروگرام کے تابع بنانے کے درپے ہے۔
تب پاسوک نے یورپ میں دوسری عالمی جنگ کے بعد محنت کشوں پر ہونے والے سب سے بڑے حملوں کا آغاز کیا جو پہلے پیپنڈر کے ذریعے کرائے گئے اور بعد میں یورپی یونین کیطرف سے مسلط ٹیکنوکریٹ گورنمنٹ کے ذریعے جس میں این ڈی اور انتہائی دائیں بازو کی یونانی پارٹی لاؤس(LAOS)شامل تھیں۔لاکھوں لوگوں کا معیارِزندگی غربت کے باعث گر گیا۔ اسکے باعث پاسوک تہس نہس ہوگئی جو این ڈی کے ساتھ ساتھ 1974میں سی آئی اے کے بنائے کرنیلوں کے اتحاد کے زوال کے بعد سے یونان کی اہم حکومتی پارٹی تھی۔
جب مئی2012میں پوساک زوال پذیر ہوئی اور سریزا پارٹی این ڈی کے بعد دوسری بڑی پارٹی بن کے سامنے آئی تب بھی WSWSنے سریزا کے رجعتی پروگرام کے بارے میں اسطرح سے خبردار کیا تھا،’’معاشی ترقی کا معاہدہ جس پر یورپی یونین میں بات چل رہی ہے اور جس پر سپراس کو بہت امیدیں ہیں دراصل بیمار بینکوں اور ڈھانچوں کی اصلاحات کے لیے اضافی فنڈز کی فراہمی ہے جسکا صاف مطلب یہ ہے کہ حالاتِ کار میں لچک اور کم اجرت کی ادائیگی مزید برآں عوامی فلاح وبہببودپر خرچ میں کٹوتی بلاتعطل جاری رہے گی۔اگر سریزا الیکشن جیتی تو یہ محنت کشوں پر ہونے والے حملوں میں اضافے میں اہم کردار ادا کرے گی‘‘۔
2012میں این ڈی کی انتخابی کامیابی کے بعد سے بیرونی طاقتوں نے سپراس کی دیکھ ریکھ شروع کر دی جس نے اہم یورپی دارالاخلافوں کے دورے کیے اور 2013میں نیویارک اور وشنگٹن یاترا کی۔ سامراجی قوتوں، میڈیا اور نام نہاد بائیں بازو کی پارٹیوں کیطرف سے سریزاکی پذیرائی دیکھتے ہوئے WSWSنے نتیجہ نکالا کہ ’’ آنے والی طبقاتی تحریکوں میں سریزا ایک دشمن کے طور پر سامنے آئے گی۔ خواہ یہ طاقت میں ہو یا اقتدار سے باہر اسکا ایک ہی مقصد ہے سخت گیر معاشی پالیسیوں کے خلاف جدوجہد کو لگام ڈالنا اور محنت کشوں کے مقابلے میں سرمایہ کا تحفظ کرنا ‘‘۔
جب جنوری 2015میں این ڈی حکومت مخالف احتجاجوں اور سخت گیر معاشی پالیسیوں کیخلاف ہڑتالوں کے ایک سال بعد سریزا حکومت میں آئی تو WSWSنے لکھا،’’ محنت کشوں کے لیے سریزا حکومت آگے کا راستہ پیش کرنے کی بجائے انکے لیے خطرہ ثابت ہوگی۔اپنے کو بائیں بازوکہنے کے برعکس سریزا ایک بورژوا پارٹی ہے جو درمیانے طبقے کے امیر لوگوں پر انحصار کرتی ہے۔ اسکی پالیسیاںیونین بیوروکریٹ، کتابی دانشور ، پیشہ ورلوگ اور پارلیمانی ماہرین بناتے ہیں جو موجودہ سماجی نظام کو برقرار رکھ کر اپنے مفادات کا تحفظ چاہتے ہیں۔ جہاں ایک طرف سپراس محنت کشوں( ووٹروں) سے سخت گیر معاشی پالیسیوں میں نہ ہونے کے برابر کمی کا وعدہ کرتا ہے وہاں دوسری طرف بینکوں اور بیرونی حکومتوں کے نما ئندوں سے سریزا حکومت سے بے خوف رہنے کے وعدے کرتے نہیں تھکتی‘‘۔
سریزا حکومت کا ریکارڈ ان تمام تنبیہات کو درست ثابت کرتا ہے۔اپنے آغاز سے اسے ان لاکھوں لوگوں کی امنگوں سے خوف رہا اور انکی مخالفت کی جو اسکو اقتدار میں لانے کا سبب بنے۔ مزدوروں کے لئے عالمی پیمانے پر سخت گیر معاشی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کی کال دینے کی بجائے اس نے یورپ کے حکمران طبقے کی خوشامد پر انحصار کیا جسکا مقصد یورپی بینکاروں کے جذبہِ سخاوت کو ابھار کر یونان پر مسلط سخت گیر پالیسی میں محدود قرضے کے ذریعے ذرا سی نرمی حاصل کر نا تھا۔
سپراس کے پہلے فنانس منسٹریانس ویرافکاس نے بعد ازاں آبزرور جریدے کو بتایا کہ یورپی یونین کے ساتھ ابتدائی مذاکرات میں اس نے تھیچر یا رونالڈ ریگن طرز کی معاشی پالیسیوں کی تجویز دی جو اس نے برطانوی قدامت پرست وزیراعظم جان میجر کے وزیرخزانہ لارڈ نارمن اور امریکی سیکرٹری خزانہ لارنس سمرز کے ساتھ ملکر تحریر کی تھی۔
سریزا حکومتی عہدیداروں نے خود کو یورپی یونین کے سامنے گرا دیا جسکے باعث برلن ، بینکوں اور دوسری یورپی طاقتوں کو یونان پر اپنی دھونس و دھاندلی بڑھانے کا حوصلہ ملا۔11فروری کو دورہ برلن کے موقع پرویرافکاس نے کہا کہ ’’ جرمن چانسلر پورے یورپ میں سب سے چالاک سیاست دان ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں اور اسکا وزیرِ خزانہ Wolfgang Schauble شاید دانشورانہ صلاحیت کا حامل واحد سیاست دان ہے‘‘۔
سریزا نے یو نانی سرمایہ کاروں کے شکنجے سے محنت کشوں کو نکالنے کے لیے کو ئی قدم نہیں اٹھایا اورقر ضہ دینے والے اداروں سے مذاکرات کے وقت بھی سیریزا کی اولین تر جیح یہی سر مایہ دار طبقہ تھا۔ اس رویے نے یو نانی سرمایہ داروں کی بے روک ٹو ک لو ٹ مار اور اربوں یورو کی بیرون ملک منتقلی کو شہ دی۔ سرمائے کی منتقلی کے خلاف کو ئی اقدام نہ ا ٹھا یا گیا۔ اور اسی طرح بینکوں کو قو میانے یا یو نانی حکمران طبقے کی دولت ،طاقت اور اختیار پر قد غن لگانے کی زحمت تو بالکل بھی نہیں کی گئی۔
جو نہی سریزا کو اعتماد ہوا کہ اب عوامی جوش و جذبہ اور تبدیلی کی تو قعات مدہم پڑ گئی ہیں اور سیا سی صورتحال کچھ مستحکم ہو ئی ہے وہ فوراََ یورپی یو نین کے آگے ڈھے گئی۔20 فروری کو اپنے Thessaloniki Program میں دی جانے والی محدود اصلا حات کو ترک کرتے ہوئے اس نے نئے سخت گیر معاشی پالسیوں کے نئے پیکج کو متعارف کروانے کیلئے یورپی یونین کے ساتھ ایک میمورینڈم سا ئن کیا۔ چار دن بعد اس نے صحت عامہ ،تعلیم،ذرائع رسل و رسائل اور مقامی حکومتوں جیسی سماجی خدمات پر ہو نے والے اخراجات میں کٹوتی کا عہد کیا۔اِن سب کے بعد سپراس ان کٹوتیوں کو نافظ کرنے کے لیے جو بھی سیا سی چال چلے سریزا کے رجعتی طبقاتی کردار کے بارے میں کو ئی شبہ نہیں رہ جاتا ۔ بہار میں جب یورپی یو نین نے دکھاوے کے لیے بھی نرمی دینے سے انکار کر دیا توسپراس اور بھی زیادہ شدومد کے ساتھ اپنے لو گوں کے آ گے وضاحت کرنے لگا کہ اُسے کیو نکر ان کٹو تیوں کو منظور کرنا پڑے گا۔
30 اپریل کو جب سپراس نے یو رپی سخت گریت کے خلاف پہلی بار ریفرنڈم کا آئیڈیا دیاتب WSWS نے خبر دار کیا کہ سیریزا زیادہ بڑی سماجی کٹو تیوں کو لا گو کر نے کی تیا ریا ں کر رہی ہے جو یورپی شہریت کے خلاف اسکے انتخابی وحدوں سے صریحاََ انحراف ہے۔ سپراس نے اشارہ دیا کہ سیریزا یورپی یو نین کی سخت پالسیوں کو لاگوکر نے کیلئے، جسے انتخابات میں یو نانی اکثریت نے پہلے ہی ردکر دیا تھا، ایک سیا سی سہارا حاصل کرنے کی خا طر ریفرینڈم کاسوچے گی۔
بالا آخر جون میں سپراس نے یورپین یونین کی اسٹریٹی پر ریفرینڈم کال کیا جو 5 جو لا ئی کو منعقد ہو نا تھا جسکے لیے سپراس نے(نو) کو وو ٹ ما نگا جیسا کہ WSWS نے پہلے ہی کہا تھااور اب سیریزا کے حامی بھی کہتے ہیں کہ یہ ایک بد ترین سیاسی فراڈ تھا۔
سپراس کا ارادہ ریفرینڈم میں شکست کے بعد ’ہاں‘کے ووٹ کو جواز بنا کہ استعفی دینے کا تھا تاکہ بعد میں دائیں بازو کی حکومت قائم ہو جو سخت پا لسیوں کو بلا روک ٹوک کے نا فظ کر سکے۔
پر انے پیبلوئیڈ طارق علی نے , جو سیریزا کو چا ہنے والا ہے,لندن ریویو آف بکسمیں لکھا یہ اب کو ئی راز نہیں کہ سپراس اور اسکے نزدیکی ساتھیوں کو ’ہاں‘ یا بہت کم مارجن سے ’نا ں‘ کے وو ٹ کی تو قع تھی تو سوال یہ ہے کہ اس نے پھر ریفرینڈم کا فیصلہ کیو ں کیا مرکل نے اپنے مشیروں سے کہا تھا کہ سپراس بہت کٹر اور نظر یاتی شخص ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سپراس کے نزدیک ریفرینڈم ایک سو چا سمجھا رسک تھا اس نے سو چا تھا کہ ’ہاں‘ والاکیمپ جیت جائے گا وہ استعفی دے دے گا تاکہ یورپی یو نین کے چمچے حکومت کی باگ ڈور سنبھال لیں ؛
یہ اندازہ ریفرینڈم کر وانے کی حکمت عملی کے خبطی پن کے تا ثر کو مزید تقویت دیتا ہے۔ ویروفکاس جو سیریزا کا سا بقہ وزیر خزانہ ہے ریفر ینڈم کے بعد گارڈین کو بتایا کہ میں نے اور غالبَاَ وزیر اعظم نے بھی یہی سو چا تھا کہ ہماری اور ’’نو ووٹ‘‘ کی حمایت بہت تیزی سے ماند پڑ جائیگی۔
نیو یارک میگزین میں شائع ویروفکاس کی پر و فا ئل میں ریفر ینڈم سے عین پہلے سا بقہ وزیر خزانہ کی کفیت کی عکاسی یو ں کی کہ وہ اس ریفر ینڈم کوایسے شخص کے ذ ہنی سکون کے ساتھ دیکھ رہا تھا جسے پتہ ہو کہ وہ ہار رہا ہے اور نتا ئج کو دل سے تسلیم کر نے کے لیے تیار بھی ہو۔ اسے یقین تھا کہ لو گوں کی اکثریت انکے خلا ف ہاں کے حق میں ووٹ دیں گے۔ جسکا مطلب معاشی پالیسی میں مزید رعائیتں تھیں جن پر عمل کرنے کا ویروفکاس اور سپراس میں حو صلہ نہیں۔ اسکے نتیجے میں ویروفکاس مستعفی ہو جا تا اور اسے دن بھر جاری رہنے والی والی بر سلز اور لکسمرگ کی میٹنگز سے بھی نجات مل جا تی۔
ویروفکاس کے گا رڈین کو د ئیے گئے انٹرویو کو مطا بق سپراس کے ریفر ینڈم میں شکست کا واحد مطلب یو نا نی فا شسٹ پا ر ٹی گولڈن ڈان (Golden Dawn) کی تقو یت تھا۔
تا ہم سیریزا کے حامیوں نے ریفر ینڈم کو ایک فیصلہ کن قدم حتیٰ کہ بور ژوا جمہوریت کی زینت تک قرار دیا۔بین الاقوامی سوشلٹ تنظیم نے ریڈنیٹ ورک پر جو کہ سیریزا کے حامی با ئیں بازوپلیٹ فارم کا حصہ ہے امریکہ میں سپراس کے بارے میں دعوی شائع کیا’’ اسکا عالمی لیڈروں کے الٹی میٹم کو رد کرنا، مزید سخت گیر پالسیوں کے لئے نئے میمورینڈم پر سا ئن سے انکار کرنا اور پا نچ جولائی کو لوگوں کی رائے لینے کے لیے ریفر ینڈم کے لیے جا نا یہ سب ایسے فیصلے ہیں جو یو نانی سیا ست کا رخ تبدیل کر دیں گے ‘‘۔ اس نے بڑایا د گار تبصرہ کر تے ہو ئے لکھا کہ سیریزا کو آسانی سے سخت گیر یت کی حامی پارٹی میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
جبکہ WSWS نے خبر دار کیا تھا کہ سپراس کو اگر مختصر الفاظ میں اپنے عوام کو ریفرینڈم کی و ضاحت کر نی ہو تی تو وہ اس طرح کر تا کہ اگرسر( ہیڈ) آیا تویورپین یونین جیتے گی اور اگردُم( ٹیل) ہوئی تو آپ لو گ ہار جا ئیں گے۔ پا نچ سا لوں سے نافظ سخت گیرمعا شی پا لیسی کے بعد اس پا لیسی کے خلاف نعرے کی بنیاد پر جیتے گئے ریفرینڈم کی اگر کو ئی ضرورت تھی تو وہ صرف یورپی یونین کے سامنے جھکنے کے لیے ایک جواز کے لیے تھی۔اگرسیریزا نے واقعی لڑنا ہو تا تو اسے ریفرینڈم کی کیا ضرورت تھی جبکہ لو گوں نے ابھی محض سات ماہ پہلے ہی انہیں سخت گیریت کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ سپراس کی ریفر ینڈم کی سکیم الٹی پڑ گئی کیو نکہ عوام کی 61 فیصداکثریت نے یورپی یونین کی سخت گیر پالیسیوں کے خلاف ووٹ دیا جو بہت واضح طور پر طبقاتی تفریق کی عکاسی کر تا ہے۔
عوام نے یورپی یو نین اور یونانی میڈیا کی ان دھمکیوں کا ڈٹ کے مقابلہ کیا جنکے مطابق اگر عوام نے ’نو‘ کا ووٹ دیا تو یورپی یو نین یو نان کو یورو زون سے نکال با ہر کر ے گی جو بہت بڑے مالی بحران کا باعث ہو گا۔ درحقیقت عوام کی اکثریت کی طرف سے ہاں کے ووٹ کا صاف صاف مطلب یہ تھا کہ عوام ریفرینڈم میں سرمایہ داری سے جنگ کے لیے تیا ر تھے۔ سیریزاکو ’ نو‘ ووٹ نے بہت زیادہ مایوسی اور خوف میں مبتلا کر دیا ۔ جو انہوں نے محض دھوکہ دہی کے لیے منعقد کیاتھا۔ طارق علی لندن ریویوآف بکس میں لکھتا ہے کہ ریفر ینڈم کے نتیجے نے انہیں چونکا کہ رکھ دیا بد حواسی کے عالم میں پو ری کا بینہ کی ہنگامی میٹنگ انکی مکمل پسپائی ظاہر کر تی ہے۔ انہوں نے یو نا نی سٹیٹ بینک کے سربراہ کو ہٹانے سے انکار کر دیا جو کہ مرکزی یو رپی بینک کا ممبر تھا۔ اور بینکوں کو قومیا نے کے مطالبے کو رد کر دیا گیا۔ ریفرینڈم کے نتائج پر عمل درآمد کی بجائے سپراس یورپی یونین کے آگے جھک گیا۔
یورپی لیڈروں سے کو ئی دو ہفتوں کی محبوبانہ با ت چیت کے بعد سپراس نے 13 ارب یورو کا سخت گیر پالیسیوں پر مبنی یورپی یو نین کا واحد سب سے بڑی کٹوتیوں والا پیکچ قبول فرما لیا۔WSWS کیطرف سے ریفرینڈم کے انجام کے بارے میں کی جا نے والی پیش گو ئیاں حرف بحرف درست ثابت ہو ئیں۔ ’ناں‘ کے ووٹ کا واضح مطلب یہ تھا کہ محنت کش طبقہ لڑائی کے لیے تیار ہے اور وہ سیریزا کی مو جو دہ پالیسیوں کے خلاف ہے تا ہم سیریزا نے سیا سی جدو جہدکو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے محنت کشوں کو متحرک کرنے میں کو ئی کردار ادا نہیں کیا۔ ریفر ینڈم نے فیصلہ کرنے کی سیا سی طاقت سپراس کو دے دی۔ دوسرے لفظوں میں یہ طاقت سخت گیریت کی قوتوں کو سونپ دی گئی۔
تا ہم آنے والے ستمبر2015 کے الیکشن میں محنت کش طبقہ اور یونانی عوام کی اکثریت جس نے جولائی ریفرینڈم میں ’نو‘ کا ووٹ دیاتھا اب اِس آپشن سے یکسر محروم ہو گئی کیونکہ سپراس اوراین ڈی پارٹی کے Maimarakisدونوں اہم امیدواروں نے کھل کر سخت گیریت کی حمایت میں کمپین چلائی۔ لوگوں کی اکثر یت نے ووٹ دینے سے گریز کیا اوراین ڈی کی مخالفت میں پڑنے والے وو ٹ کا نا جا ئز فا ئدہ اُٹھا کرسپراس ایک بار پھر منتخب ہو گیا۔ اپنے دوبارہ انتخاب کے بعد سپراس نے یو رپی یو نین کے ساتھ ملکر یو نا نی محنت کش طبقے کے خلاف و حشیانہ یلغار شروع کر دی۔اسکے سخت گیریت پر مبنی بجٹ میں محنت کشوں کی پنشن میں 20% کمی کر دی گئی اورسیریزا نے لو گو ں کے مکانات کی قسطوں میں عدم ادائیگی کی صورت میں انہیں گھروں سے نکالے جانے کے خلاف دئیے جانے والے ریاستی تحفظ کو ختم کر نے کی کو ششوں کا بڑھ چڑھ کے ساتھ دیا جس سے ممکنہ طور پر لاکھوں خاندانوں کو انکے گھروں سے بید خل کیے جانیکی صورتحال پیدا ہو گئی۔ اگر ابھی بھی کسی مزید تصدیق کی ضرورت تھی تو یہ بربر یتی حملے وہ تصدیق فراہم کر رہے ہیں کہ محنت کش طبقہ اپنا تحفظ سیریزا کے خلاف جدوجہد کر کے ہی کر سکتا ہے۔
-4 سیریزا کا آغاز وارتقا: سریزا کیطرف سے ہو نے والے غداری کو ئی حادثہ نہ تھی۔ اگر چہ سیریزا نے خود کو بائیں بازو کا ظاہر کیا تھا تا ہم یہ جس پا لیسی پر عمل درآمد کر رہی ہے۔ اسکی جڑیں اسکے ما ضی سے ملتی ہے۔ یہ اپنے آغاز سے ہی ایک بوژوا پا رٹی تھی جو محنت کش طبقے اور مارکسزم کی مخالف تھی۔
سیریزا کا 2004 میں تب ظہور ہوا جب مختلف درمیانے طبقے کی پارٹیاں ایس وائی این(SYN) نامی اتحاد کا حصہ بنیں اس وقت سپراس ایس وائی این کاایک نو جوان راہنما تھا جو کہ کے کے ای(KKE) کے ساتھ ساتھ یو نا نی سٹا لن ازم کے اہم با قیات میں سے تھی۔ ایس وائی این نےDEA (انٹرنیشنل ورکرز لیفٹ جو کہ ٹراٹسکی مخالف دھڑا تھا جس نے یو ایس ایس آر کی ریا ستی سرمایہ داری کہہ کر مخالفت کی تھی ) جیسے ان گروہوں کو اپنی طرف راغب کیا جو 1974 کے کر ینلی جنتا کے خا تمے کے بعد طلبا جدوجہد سے اُبھرے ۔یہ طلبا جدوجہد ایک ایسے دور میں پروان چڑھی جب یو نانی عوام کی اکثریت سر ما یہ داری کو فا شزم کے جرائم ،خانہ جنگی اور بار بار مسلط ہونے والی آمریت کے باعث رد کر چکی تھی۔طلبا نے پاسوک کے زیر اثر یو نینوں کی کال پر کی جا نے والی ہڑ تالوں اور مظاہروں میں بھر پور شرکت کی جسکے باعث پاسوک کے سیاسی اثرورسوخ میں اضافہ ہوا۔لیکن اسکاقطعاََ یہ مطلب نہیں کہ ان طلبا نے کسی مز دور انقلاب کے تنا ظر کی حمایت کی تھی۔اسکی بجائے اُنکا ارتقاء 1968 کے بعد درمیانے طبقے کے دانشواروں کے دائیں بازو کیطرف جھکاؤ سے ہم آہنگ تھا۔اُس سال سوویت فوج نے پراگ کی مو سم بہار کی بغاوت کو کچلا تھا اور فرانسیسی کمیونسٹ پا ر ٹی نے مئی اورجون 1968 کی فرانس کی عام ہڑتال کے وقت طاقت محنت کشوں کے ہاتھوں میں لیے جانے سے روک دیا تھا۔
سٹالنسٹ پار ٹیاں محنت کشوں اور نو جوانوں کی وسیع ہوتی ریڈیکلائزیشن کے دوران موجودہ نظام کو بر قراررکھنے والی قوتوں کے طور پر ننگی ہو گئیں۔اب وہ سوویت بیوروکریسی کی دی گئی ردا انقلابی خارجہ پالیسی کی لا ئنوں پر عالمی محنت کشوں کی انقلابی تحریکوں کو روکنے میں کردار ادا کرنے کی صلاحیت سے قاصر ہو چکی تھیں۔
تا ہم طلبا جدوجہد میں شامل درمیانے طبقے کی پر توں نے سٹالن ازم کے ردانقلابی کردار کے رد عمل کے طور پر حقیقی انقلابی پارٹیوں کی تشکیل کی کو ششیں نہیں کیں بلکہ اسکی بجائے انہوں نے محض بائیں بازو کی لفا ظی کر تے ہو ئے محنت کشوں کو ایک انقلابی قوت کے طور پر مسترد کر تے ہو ئے ایسی جدو جہد کو رد کر دیا جسکے با عث با لشویک پا ر ٹی جیسی انقلا بی پا ر ٹی تعمیر کی جا سکے جس نے 1917 میں لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں روس میں سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینکا تھا۔
جیسا کہ اینٹارسیا (ANTARSYA) جو کہ یو نا نی پیٹی بورژوا سیا ست میں سیریزا کی اہم ترین حریف ہے کا لیڈر Panagiotis Sotiris لکھتا ہے انہوں نے بجائے درمیانے طبقے میں اپنی بنیادیں بنانے کے صرف متلاشی رہے کہ خودبخود کچھ ہو جائے۔ اس وقت اس نے جیکوبن میگزین کو بتا یا’’ تب ہم محض اتحاد کے بارے میں سوچ رہے تھے جیسا کہ ہم سمجھتے تھے کہ یونیورسٹیوں میں بائیں بازو کے ر حجا نات کا اتحاد ایک بہتر لا ئحہ عمل ہے ۔ وہ اسی طرز پر بائیں بازو کو اکٹھا کر نے میں مددگار ہو گا بجائے اُسکے کہ ایک پا رٹی یا انقلابی تنظیم کو کھڑا کیا جائے۔
اس طرز کی درمیانے طبقے کی سیا ست کو نظر یاتی اور سیا سی جواز پو سٹ ما ڈرنسٹ اور پو سٹ مارکسسٹ دانشوروں نے فراہم کیا جیسا کہ ارجنٹائن کا پروفیسر ارنیسٹو لیکلاؤ ہے جس نے سیریزا کے موجو دہ بہت سے لیڈروں کی بر طانیہ کیEssex یو نیو رسٹی میں تربیت کی ہے۔ اسکی بلجیم کے پروفیسر شا نٹل ماؤف(Chantal Mouffe) کے اشتراک میں لکھی گئی مشہور زمانہ کتاب بالادستی اور سوشلسٹ حکمت عملی (Hegemony and Socialist Strategy) محنت کشوں اور مارکسزم کے خلا ف حملوں سے بھری پڑی ہے۔
لیکلاؤ اور ماؤف اپنے پڑھنے والوں سے محنت کش طبقے کو ایک مکمل اکا ئی اور مکمل ہم آہنگ عامل کے طو ر پر مسترد کر نے کو کہتے ہیں اسطرح سے وہ محنت کش طبقے کو تبدیلی کے عامل کے طور پر اور سو شلزم کے لیے مو جو د معروضی معاشی و سما جی بنیادوں کے وجود کو یکسر رد کر دیتے ہیں۔
اپنی کتاب میں وہ لکھتے ہیں ’’ ایک حقیقی محنت کش طبقے کی تلاش اور اسکی حدود کا تعین دراصل ایک مغالطہ ہے جسکی کو ئی نظریاتی یا سیا سی اہمیت نہیں۔اسکا ظاہری طور پر یہ مطلب نکلتا ہے کہ سو شلزم میں مو جودبنیادی اصول و ضوابط کو منطقی طور پر معا شی عمل کے فیصلہ کن حا لا ت سے اخذ نہیں کیا جاسکتا‘‘ ۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا لیکلاؤ کی طرف سے محنت کش طبقے کے انقلابی کردار کے بارے میں نفی سرمایہ داری سماج کو سمجھنے کی کسی بھی حقیقی کا وش کے خلاف کھلی غیر عقلی مخاصمت میں تبدیل ہو تی گئی۔
سمجھداری کی سامراجیت ) (Imperialism of Reasonکے خلاف لکھے گئے ’ محض خدا جانتا ہے (God Only Knows) ‘ نامی مضمون میں 1991 میں لیکلاوَ لکھتا ہے ’’ آئیے ہم اس بحث پر ایک نظر ڈالتے ہیں کہ کیا محنت کش طبقہ اب بھی ایک تا ریخی طور فیصلہ کن سماجی عنصر ہے یا اسکی جگہ نئی سماجی تحریکوں نے لے لی ہے۔ میں یہ دلیل دوں گا کہ اس طرح یہ مسلہ حل کر نے کا یہ وہی پرانا طریقہ کار ہے جس سے ہم پیچھا چھڑانا چاہ رہے ہیں کیو نکہ اس طرح سے یہ سوال رکھنے سے یہ تا ثر ملتا ہے کہ تا ریخی تبدیلی میں فیصلہ کن کر دار ادا کرنے کے لیے محض کوئی ایک تا ر یخی عا مل ہو نا چا ہیے جسکا تعین تا ریخی اور سما جی کلیت سے ہو اور جسے ہم عقلی بنیا دوں پر سمجھ سکیں۔دراصل یہ آخری مفروضہ ہی سب سے زیادہ قابل اعتراض ہے‘‘۔
یہ وہ غیر عقلی نظریا ت تھے جو پپینڈرو کی پاسوک گو رنمٹ کی زوال پذیری کے دوران ایس وائی این کی 1989 کی تشکیل میں مو جو ددرمیا نے طبقے میں سرایت کر چکے تھے۔ایس وائی این یو نا نی کمیو نسٹ پا ر ٹی (KKE) اور یو نا نی لیفٹ پا ر ٹی کے انتخابی اتحاد سے وجود میں آ ئی یو نا نی لیفٹ پارٹی اصل میں KKE سے الگ ہو نے والا یورپی کمیو نسٹوں کا ایک سٹالنسٹ دھڑا تھا جس میں پاسوک پا رٹی کے سا بقہ Nikos Konstantopoulos جیسے سر ما یہ دار سیا ست دان بھی شامل تھے۔
ان نام نہا د یورپی کمیونسٹوں کی سٹالن ازم کی تنقید اور ٹراٹسکی اور چو تھی انٹر نیشنل کیطرف سے کریملن نو کر شاہی کی مخالفت میں کو ئی قدرِ مشترک نہیں ہے۔ جہاں ایک طرف ٹراٹسکی نے طفیلی نو کر شاہی کو ایک سیا سی انقلاب کے ذریعے اکھاڑ پھینکنے کی، مزدور جمہوریت کے دوبارہ قیام کی اور اکتو بر انقلاب کے اہم حاصلات کو بر قرار رکھنے کی بات کی وہاں دوسری طرف یو رپی کمیونزم اصل میں سٹالن ازم کا د ا ئیں با زو میں تبدیل شدہ روپ کے علا وہ اور کچھ نہیں۔یو ر پی کمیونسٹ دراصل سٹالنسٹ پا ر ٹیوں میں مو جود لیکلاؤ جیسے دانشوروں کے پھیلائے ہوئے مارکسزم مخالف نظریا ت کا ہی ایک عکس تھے۔وہ انقلاب ،مارکسزم اور اکتوبرکے روسی پرولتاری انقلاب کو رد کر تے ہو ئے خود کو ماسکوسے فا صلے پر رکھ کر اپنے حکمران طبقے سے ملکر کام کر نے کے خواہاں تھے۔یہ رحجان جو اطالوی اور ہسپانوی کمیونسٹ پارٹیوں میں زوروں پر تھا دراصل میخائل گوربا چوف کی سٹالنسٹ بیوروکریسی کیطرف سے سوویت یو نین میں سر ما یہ داری کی بحالی کا اشارہ تھا۔
ایس وائی این کی تشکیل یو نا نی سٹالن ازم کے ہر گروہ کیطرف سے مزدوروں کو آنے والے لمبے عرصے میں دی جانے والی ہر غداری کا محض ابتدائیہ تھا۔جب پپینڈرو کی گورنمنٹ ختم ہو ئی اور این ڈی آنے والے انتخابات میں واضح اکثریت لینے میں ناکام ہو گئی تب ایس وائی این نے این ڈی کے سا تھ ملکر ایک اتحادی گو رنمنٹ بنالی۔ اسطرح سے یو نا نی با ئیں با زو نے اُس دائیں با زو سے شادی کر لی جس نے 1946-49 کی یو نا نی سول وار اور1967-74 کی کر نیلی جنتا کی حکومتوں کے دوران محنت کش طبقے کو بری طرح خون میں نہلایا تھا۔دا ئیں اور بائیں بازو کا اتحاد پھیل گیا اور اس میں پاسوک پا ر ٹی بھی شامل ہو گئی حتیٰ کہ1990 میں یہ زوال پذیر ہو گیا۔
کے کے ای(KKE) اور سیریزا کے پیش روؤں نے سرمایہ داری کو اشارہ دے دیا تھا کہ اب وہ بھی سر ما یہ داری کے حامیوں میں سے ہیں۔این ڈی کی حکومت میں وزارتِ قانون اور وزارتِ داخلہ ایس وائی این کے عہد یداروں کے پاس تھی لہذا دوسری عا لمی جنگ کے بعد ہونے والی محنت کشوں، ٹراٹسکائٹ اور خو د کے کے ای کی ممبران کی ہلاکتوں اور تشدد سے متعلق تمام فائلیں انکے کنٹرول میں تھیں اور اس وجہ سے انہوں نے بہت ساری فا ئلیں تباہ کر دیں جنکے ہو نے سے ان جرائم کے ذمہ دار ان کا تعین اور انہیں سزا ہو سکتی تھی۔
ایک سال بعد روسی بیورو کر یسی میں ایس وائی این کے اتحادیوں نے یو ایس ایس آر کا خا تمہ کر تے ہو ئے رو سی محنت کشوں کو سر ما یہ داری کی لو ٹ مار کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ اسطرح کے بھیانک جرائم کے سا تھ کے کے ای اورسیریزا کے پیش روؤں نے بیسویں صدی میں محنت کش تحریک کے ساتھ جڑنے والے اپنے ہر رشتے کو ختم کر دیا۔کے کے ای نے ایس وائی این اتحاد 1991 میں چھو ڑ دیا تا ہم ایس وائی این سابق یو ر پی کمیو نسٹوں کے گڑھ کے طور پر قائم رہی۔
کے کے ای اورایس وائی این دونوں پا ر ٹیوں نے سوویت بیوروکریسی کی حامی ردِ انقلابی پا ر ٹی سے کھلم کھلا سرمایہ داری پا رٹی کیطرف اپنی تبدیلی کا عمل مکمل کر لیا۔
سیریزا کے دوسرے رحجانات جیسا کہ ڈی ای اے (DEA)، ماؤسٹ ،علا قائی گروہ اور کے کے ای سے الگ ہو کر آنے والے سیریزا کے سر مایہ داری کیطرف ارتقاء کے باعث اس سے آن ملے تھے۔اکیسویں صدی کے آغاز پر جیسا کہ ڈی ای اے کا Panos Petrou سریزا کے قیام سے متعلق اپنے مضمون میں لکھتا ہے کہ ایس وائی این زوال پذیری کا شکار تھی۔اور اسے پارلیمنٹ میں منتخب ہو نے کی امید نہیں تھی۔یہ سا بقہ عر صے میں اسکی سینٹر رائٹ (Centre-Right) پا لیسیوں کا نتیجہ تھا جسکے با عث یہ پاسوک کا محض ایک عکس بن کر رہ گئی تھی۔
2004 میں سیریزا کی تشکیل دراصل ایس وائی این کو دوبارہ ایک بائیں بازو کا چہرہ دے کر زندہ کرنے کی ہی کو شش تھی جسمیں عراق جنگ کے خلاف مظاہروں میں شامل دوسری پا ر ٹیوں کو بھی اس اتحاد میں شامل کر لیا گیا۔ جیسا کہ Petrou لکھتا ہے ایس وائی این کے راہنماؤں کی نظر میں سیریزا زیادہ تر ایک اسے انتخابی اتحاد کا نام تھا جسکاکام اُسے قومی سطح پر تین فیصد عوامی ووٹ کی حد تک لے کے جانا تھا جو یو نا نی پارلیمنٹ میں شمولیت کے لیے لازمی شرط تھی۔
انکے اصل کر دار کی عکا سی سیریزاکے اندر سما جی پر توں کی بڑ ھتی ہو ئی قدامت پر ستی اور دولت مندی سے ہو تی ہے۔جیسا کہ اخبا ری ذرائع نے واضح کیا کہ کس طر ح سا بقہ گریجویٹ طلبا نے سیریزا کے وزیر بن کر بے شمار بینک اکاونٹس اور رہائش گا ہیں بنا لیں اور خود کو درمیانے طبقے کی خوشحال پرتوں میں شا مل کر لیا۔یورو کے متعارف ہو نے ،بڑ ھتی ہو ئی جا ئیداد کی قیمتوں اور یورپی معیشت میں ما لیا تی سر ما یہ داری کے مزے اڑاتے ہو ئے جب انہوں نے لیکلاؤ جیسے دانشوروں کو پڑھا تو ان کو سرمایہ داری کے فیوض و برکات پر یقین کامل ہو تا گیا۔
انکے مزاج کی صحیح صحیح عکاسی لیکلاؤ کے طبقاتی کشمکش اور بذات خود سماجی طبقہ کے و جود کی نفی جیسے خیالا ت سے ہو تی ہے۔2007 میں اپنی کتاب نظریہ اور بعدازمارکسسزم (Ideology and post Marxism) میں اس نے دعوی کیا ’’کہ سر ما یہ داری کے خلاف جدوجہد میں بہت سا رے عوامل ہیں جنہیں محض طبقا تی نو عیت نہیں دی جا سکتی ہم کو بہت ساری کشمکشوں کا سامنا ہے جو ہمارے سماج میں اتنی ہی متنوع ہو تی جا تی ہے جتنا زیا دہ ہم ایک عا لمی دور میں جا تے ہیں لیکن اس میں طبقاتی کشمکش نہ ہو نے کے برابرا رہ گئی ہے۔
یو نا نی محنت کشوں کے معیار زندگی میں فقید المثال گرواٹ میں سیریزاگورنمنٹ کے اہم کر دار کے با عث مذکورہ بالا خیالات کے رجعتی کردار کے بارے میں کو ئی شبہ با قی نہیں رہ جا تا ۔حقا ئق پر پردہ ڈالنے کے لیے یہ اصرار کہ حقیقت کو عقلی بنیادوں پر نہیں سمجھا جا سکتا ہے اور محنت کش طبقے کی حقیقت سے انکارنے اُن پیٹی بورژوا پا ر ٹیوں کے لیے نظریاتی جواز کا کام کیا ہے جو صرف نام کی با ئیں با زو کی ہیں۔ سیریزا حکومت وسیع تر محنت کش عوام کی امنگوں کے خلاف ایسی سخت گیر معاشی پا لیسیاں نا فذ کر رہی ہے جو یونان کی معا شی خود کشی کے متراف ہے۔
(5) سیریزا کے ’’با ئیں با زو‘‘ کے شریکِ جُرم : محنت کش طبقے کیطرف سے سخت گیر معا شی پا لسیوں کے خلاف جدو جہد کی اولین مشرط یہی ہے کہ وہ اپنا نا طہ ان جھو ٹی کر پٹ با ئیں با زو کی پارٹیوں سے تو ڑ لیں۔ان پا ر ٹیوں کے دیواینہ پن کا اندازہ ستمبر الیکشن میں ان کی واقع ناکامی سے ہو تا ہے جو خو د کو سپراس کی پہلی حکومت کے بائیں با زو کے نقاد کے طور پر پیش کرتیں ہیں۔پا پو لر یو نٹی پا ر ٹی جو لیفٹ پلیٹ فارم (Left Plate From) میں انٹارسیا سے ماؤسٹ دھڑوں کو لیکر آئی تھی سیریزا سے علیحدگی کے بعد 3 فیصد ووٹ بھی نہ لے پا ئی جو کہ یو نانی پارلیمنٹ میں ایک داخلے کے لیے ضروری ہے۔انٹارسیاکے با قی دھڑوں جن میں پیبلوئیڈ اور ماوسٹ گروپوں کے علاوہ EEK یعنی مچل مٹاسسSavas Michael Matsas کی ورکز انقلا بی پا ر ٹی کے لو گ بھی اکھٹے تھے ملکر محض 0.85 فیصد ووٹ حا صل کر پا ئی۔
یونان میں موجودانتہاء کے بحرانی حالات میں یہ ایسے کم ترین نتا ئج ان پا ر ٹیوں کے جنوری 2015 سے ستمبر 2015 کے دوران ادا کیے گئے کردار کی سزا ہے۔انہیں کو ئی سنجیدہ حمایت اس لیے حا صل نہیں ہو ئی کیو نکہ انہوں نے خو د کوسیریزا سے بنیا دی طور پر الگ کر نے اور محنت کشوں کو کسی انقلا بی تنا ظر کیطرف لے جا نے کی کو شش نہیں کی ۔
لیفٹ پلیٹ فارم نے جنوری سے جو لا ئی تک سیریزا گو ر نمنٹ کی وفاداری اور با ئیں با زو کیطرف سے سیریزا کے خلاف ہر طرح کی مخالفت کو روکے رکھا اس نے اِس جھو ٹ کی تو ثیق کی کہ فروری میں سخت گیر پا لیسی نا فذ کر نے کا ارادہ کر نے کے باوجودسیریزا با ئیں با زو کی پالیسیاں جا ری رکھے گی۔ایک قرار داد میں اس نے سیریزا کے راہنماؤں سے مطالبہ کیا کہ ’’ آپکی سخت گیر پا لیسیوں سے ابتدائی مفاہمت کی سنجید گی کے باوجود ابھی بھی آپ کے پا س وقت ہے کہ اس صورتحال کا مداوا اپنی سمت تبدیل کر کے اور ضروری انقلابی اور سو شلسٹ پا لیسیوں پر عمل کرتے ہو ئے کر لیں‘‘۔
لیفٹ پلیٹ فارم کی یورپی یو نین کی سخت گیر معاشی پا لیسی کے مخالف ہو نے کا تا ثر دینے کی کو شش ایک فرا ڈ سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ جولائی کے اختتام پر اس نے سیریزاکی مرکزی کمیٹی میں سپراس کی طرف سے طے کردہ سخت گیر پالسیوں کے خلاف ووٹ دینے میں اجتناب کیا اسطرح اس نے سخت گیریت کے خلاف کوئی پوزیشن لینے سے اجتناب کر تے ہوئے اسے پاس ہو نے دیا۔
جب جو لا ئی میں سپراس نے یورپی یو نین کے سا تھ سخت گیر معا شی پا لیسیوں کے سمجھوتے پر سا ئن کیے تو اسکے لیے لیفٹ پلیٹ فارم کی بے ضرر تنقید بھی نا قابل برداشت ہوگئی اور اس نے اپنی گورنمنٹ تحلیل کر دی لیفٹ پلیٹ فارم کو اپنی اسمبلی کے امیدواروں کی لسٹ سے بھی نکال دیا۔
تب جا کر لیفٹ پلیٹ فارم نے سیریزا سے علیحدگی اختیار کرتے ہو ئے پا پو لر یونٹی پا ر ٹی قائم کی تا کہ سیریزا کے بارے میں ابہام قا ئم رکھ سکیں اور اسطرح سے اسکے خلاف ہو نے والی کسی بھی آزادنہ عوامی مخالفت کا راستہ بھی روک دیا۔ لیفٹ پلیٹ فارم کے لیڈرPanagiotis Lafazanis نے جو سپراس کا وزیرِ تو ا نا ئی ر ہا تھا کہا کہ ’’ پا پو لر یونٹی سیریزا حکومت کے بہترین پرو گرام کی روایت کو جا ری رکھے گی ۔ہم زیا دہ انقلابی نعروں سے جڑ ت کے حا می ہیں‘‘۔اس میں کو ئی حیرانی کی بات نہیں Lafazanis کیطرف سے سیریزا کے رجعتی ریکارڈ کی حمایت میں کی جا نے والی اپیل کیوجہ سے انٹارسیا کے بہت سار ے دھڑے اس بات کے قائل ہو گئے کہ یہ اب پاپولر یو نٹی میں لیفٹ پلیٹ فارم کے ساتھ اتحاد کے لیے انتہائی مو زوں وقت ہے۔
جہا ں تک مچل مٹاسس اور EEK کا تعلق ہے انہیں یہ انٹارسیا کے دوسرے گروپوں کے سا تھ ہم آہنگ ہونے اورسیریزا حکومت اور یو نانی حکمران طبقے کے لیے با ئیں بازو کا ایک نیا پردہ قائم کر نیکا سنہری مو قع ہاتھ آ گیا۔ ان تمام گرو پوں کا رحجان محنت کش طبقے کی بجا ئے سیریزا کیطرف تھا۔ آخری تجزے میں محنت کشوں نے درست طور پر انہیں اس وسیع نظام کا ایک حصہ جا نا جس نے انہیں دھوکہ دیا۔
ان عنا صر نے خود کو جنوری سے ستمبر کے آٹھ ماہ میں جو کچھ کیا اسکا لینن اور بالشویک پا رٹی نے فروری 1917 میں جمہوری حکومت کے آنے سے اکتوبر انقلاب تک جو کچھ کیا اس سے ایک موازنہ کر نا ہی انکے درست کردار کو جا ننے کے لیے کافی ہے۔مو خر الذ کرنے لو گوں کے جمہوری حکومت کے بارے قائم کر دہ ابہام اور محنت کش طبقے پر سے بورژا پارٹیوں کی گرفت ختم کرنے کے لیے ان تھک محنت کی۔یو نا نی صورتحال سے کہیں زیادہ پیچیدہ سیاسی حالات کے با و جود وہ محنت کش کی ہمدرد باں جیتنے اور انہیں اکتوبر انقلاب کے لئے تیار کر نے میں کامیاب ہو گئے۔لیکن سیریزا کے بائیں با زو میں اس طرح کے انقلا بی کٹرپن کا شائبہ تک نہ تھا۔ان سب نے محنت کشوں میں سیریزا کے بارے میں ابہام پیدا کر کے سیریزاکے حکومت میں آنے کی راہ ہموار کی اور بعد ازاں جنوری سے ستمبر کے آٹھ ماہ خود کو سیریزا کی پا لیسی سے ہم آہنگ کرتے رہے اور اسکی پا لیسیوں کے بارے میں جھوٹ پھیلا کر اسے اپنی غداری کو مکمل کر نے کا راستہ فراہم کرتے رہے۔
-6 وسیع بائیں بازو کی پا رٹیاں اور نئی غداریوں کی تیا ریاں : سیریزا حکومت نے صرف یو نا نی محنت کشوں کے لیے ایک تلخ تجربہ ہی فراہم نہیں کیا بلکہ اس نے اپنی حامی ومددگار ان تمام ملکی اور غیر ملکی پا ر ٹیوں کو بھی بے نقاب کیا جنہوں نے اسکی حمایت کی تھی اور جو محنت کشوں پر ہو نے والی سیریزا کے حملوں کے سیا سی ذمہ دار ہیں۔بین الاقوامی محنت کشوں کو آگاہ کر نے کی ضرورت ہے کہ اگر حکمران طبقے نے کبھی انہیں اقتدا میں آنے کا مو قع دیا تو وہ بھی سیریزا حکومت کی طرح رجعتی کردار ادا کریں گے۔
جرمنی کی لیفٹ پا رٹی اور سپین کی پوڈیماس کی طر ح یہ یورپ کی اچھی خاصی معتبر پا ر ٹیاں ہیں۔سیریزا کی ہی طرح یہ بھی سوویت یو نین کے ٹو ٹنے کے بعد درمیانے طبقے کے بہت سارے ر حجانات کے سٹالن ازم سے اشتراک کے باعث ظہور میں آئیں یہ سخت گیر معاشی پالیسی کے خلاف کھو کھلے نعرے لگانے کے سا تھ ساتھ درمیانے طبقے کے مفادات سے ہم آہنگ سامراجی پالیسی کے نفا ذکا ایجنڈا رکھتی ہیں۔
سیریزا سے پہلے اٹلی کی کمیونسٹ پارٹی (Refoundation )(Partito della Rifondazione Comunista, (PRC) نے اسطرح کے طرز عمل کے نتا ئج کی یورپ کی سب سے نمایاں مثال قائم کی تھی۔Rifondazione اٹلی کی کمیونسٹ پارٹی(PCI )کی ٹوٹ پھوٹ سے سوویت یو نین اور مشرقی یورپ میں سرمایہ داری کی بحالی کے دوران ابھری۔ اس پا ر ٹی میں ٹراٹسکی مخالف پیبلوئیڈ تر میم پسند شامل تھے۔جنکی سر براہی( Livio Maileun) کر رہا تھا مزید برآں اس میں ماؤسٹ اور انارکسٹ رحجانات بھی شامل تھے۔1991 تک اس نے مختلف اطالوی حکومتوں میں ساجھے داری کی جنہوں نے اٹلی کے اندر سخت گیر معا شی پا لیسیاں نافذ کیں اور جو یوگوسلاویہ سے لیکر افغانستان تک مختلف سامراجی جنگوں میں حصہ دار رہیں۔
Rifondazione کے بار بار رجعتی حکومتوں میں حصہ داری کے دوران اسکے دفاع کرنے والوں کو پوری طرح پتہ تھا کہ وہ ایسی بورژوا پا رٹی تعمیر کر رہے ہیں جو محنت کشوں پر حملے کر تے ہو ئے رجعتی پالیسیوں کا نفا ذ کرے گی۔
سیریزا اورRifondazione جیسی نام نہاد بڑی با ئیں با زو کی پا رٹیوں کے کردار پہ بات کرتے ہو ئے پیبلوئیڈ اخبار انٹرنیشنل ویوپوائینٹ نے تسلیم کیا کہ پا ر ٹی کا ریا ست کے سا تھ تعلق اور اسکے اپنے کردار کو سمجھنا بہت اہم مسئلہ بن چکا ہے۔وہ اعتراف کر تا ہے کہ اعلی ریاستی سطح پر اداروں کے انتظام اور سو شل لبرل (سخت یگر پا لیسی کی حامی) حکومتوں کی حما یت میں یہ پا ر ٹیاں اہم مو قعوں پراپنی کشتیاں جلا بیٹھتی ہیں یہ بحث جو سیریزا کے اقتدار میں آنے سے دو سال پہلے کی گئی ،ایسے نام نہادجعلی با ئیں با زو کے حامیوں کے اس میں غلط یقین کو واضح کر تی ہے۔جب انہوں نے سیریزا کو آگے کیطرف ایک قدم کہہ کراسکی حمایت کی تھی تب بھی وہ جا نتے تھے کہ وہ غداروں کے لا متنا ہی سلسلے کا آغازکر رہے ہیں۔ اسطرح کی خبطیانہ سیا ست کی پیروی کیو جہ تاریخی عمل کیطرف انکی تحقیر آمیز کھو کھلی عملیت پسندی کی سوچ تھی۔
فرانس میں پیبلوئیڈ’’ نئی سرمایہ دار مخالف پارٹی‘‘ این پی اے (NPA)کے Alain Krivine کے مطا بق این پی اے نے چند مسائل حل نہیں کیے بلکہ انہیں مستقبل کی کانفرنسوں کے لیے چھو ڑ دیا۔ جیسا کہ اقتدار کا حصول عبوری ما نگیں اور دہری طاقت وغیرہ۔اسکا ٹراٹسکائٹ ہو نے کا بہر حال دعوی نہیں تا ہم یہ ٹراٹسکی ازم کو انقلابی تحریک کے بڑھا نے میں دوسرے عوامل کے ساتھ ساتھ ایک عامل ضرور سمجھتی ہے تا ہم سٹالن ازم کے زیر اثر جیسے کسی پا ر ٹی کوہو نا چا ہیے یہ بھی ویسے ہی ما ضی کا تجزیہ کرنے سے گریزاں ہے اور سوویت یو نین کے کردار اور سٹالن ازم وغیرہ پر رائے دینے سے پہلو تہی کرتے ہو ئے صرف اور صرف موجودہ دور اور اسکے تقاضوں پر توجہ مرکوز رکھتی ہے۔ این پی اے بیسوں صدی کے اہم ترین تا ریخی تجربے (اکتوبر انقلاب) ما ر کسی تحریک یامحنت کشوں کے لیے انقلابی لا ئحہ عمل کو درپیش مر کز ی مسا ئل پر بات ہی نہیں کرنا چاہتی۔ تاریخی بنیادوں سے ہٹ کر بنا ئی پا لیسیوں کے با عث لا محالہ طور پر این پی اے کا کردار انتہائی سطحی اور رجعتی نوعیت کا ہی ہو سکتا ہے۔ جسکی بنیاد انکے مختلف سیا ست دانوں سے ہونے والی گفتگو اور میڈیا پر ہونے والے تبصرے ہیں۔ جیسا کہ Krivine کی بات سے واضح ہے اس سب کواین پی اے نے اپنے فا ئدے کے طور پر لیا اسکے باعث ہی این پی اے کے لیے ممکن ہوا کہ وہ خود کا بائیں بازو کا ظاہر کرتے ہو ئے سیریزا جیسی ’’بڑی بائیں بازو کی پارٹیوں ‘‘ کو سخت گیر معاشی پا لیسیوں کے خلاف جنگ میں امید کی کر ن ظاہر کرے جبکہ اُسے علم تھا کہ یہ سب دراصل سخت گیریت اور جنگ کی حامی پا ر ٹیاں ہیں۔یو نا ن میں این پی اے نے تمام بین لا قوامی جھو ٹی با ئیں با زو کی پارٹیاں کی برادری میں شامل ہو تے ہو ئیسیریزا کے اقتدار میں آنے کو ایک فتح قرار دیا۔این پی اے نے اعلان کیا کہ سیریزا کی انتخابی فتح ایک شا ندار خبر ہے۔جس نے یورپ میں سخت گیریت کے خلاف ہر لڑنے والے کو پُر امید کر دیا ہے۔جبکہ جر منی کی با ئیں با زو کی پا ر ٹی کی پر یس ریلیز کے مطابق یو نا ن کے انتخابات صرف یو نان ہی نہیں بلکہ پورے یورپ کے لیے فیصلہ کن ہیں۔اس نے یورپی یو نین میں سمت کی بنیادی تبدیلی اور جمہوری احیاء کا راستہ کھول دیا ہے۔ اسطر ح کی ایک اور مثال انگلینڈ اور ویلز کی سو شلسٹ پا ر ٹی کے زیر اثر یو نا نی پا ر ٹی Xekinima کی تھی جس نے پہلے سیریزا میں شامل ہو کر اسے چھو ڑ ا اور 2015 جنوری کے الیکشن میں سیریزا کی حمایت کی ،الیکشن سے پہلے سو شلٹ پا ر ٹی سے انٹرویو کے دوران Xekinima کے لیڈر Andros Payiatsos نے کہا کہ سیریزا کیطرف سے سر مایہ داری سے ہم آہنگ ہونے کی سر توڑ کو ششوں کے واضح ثبوت کے باوجود عوام کو لڑنا ہو گا اور وہ لڑیں گے تاکہ سیریزا حکومت کو با ئیں طرف دھکیل سکیں۔
امریکہ کی انٹرنیشنل سو شلسٹ آرگنائزیشن سے ملحقہDEA کی پوزیشن اس سے بھی بڑھ گئی تھی۔ سیریزا کے با ئیں با زو کے پلٹ فارم کا حصہ ہو تے ہو ئے اس نے لکھا ان نئے خیا لا ت میں سیریزا کی ایک سیا سی پا ر ٹی کے طور کو ئی جگہ نہیں لے سکتا۔اسکے تنظیمی ڈھانچوں کی فعالی اور ممبر سازی کے سا تھ سا تھ پا ر ٹی میں ہر سطح پر موجود جمہو ریت سیریزا کی، تمام بائیں با زو کی اور ہماری آخری فتح کے لیے اولین شرط ہے۔
برازیل میں یو نا ئیڈ سو شلٹ ورکرز پا رٹی (PSTIJ) جو NAHUEL MORENO کی راہنمائی میں چلنے والی لا طینی امریکہ کی ترمیم پسندی کی تحریک کی پھو ٹ سے ابھر نے والی اہم پا ر ٹیوں میں سے ایک ہے نے بھی سیریزا کو یو نا ن میں محنت کشوں کے ذریعے استحصالی پار ٹیوں کا اکھا ڑنے میں ایک اہم ذریعہ قرار دے کر اسے ووٹ دینے کو کہا۔ان پا رٹیوں نے سیریزا کی سرما یہ دارنہ پالیسیوں کی جن بھی الفاظ میں مخالفت کی ہو انکا صرف ایک ہی مقصد تھا کہ محنت کش خود کوسیریزا کی انتخابی امنگوں کے آگے سرنگوں کر دیں اور اپنی تمام جدوجہد کوسیریزا کو بائیں بازو کی طرف دباؤ ڈالنے کا ذریعہ سمجھیں ان میں سے کسی نے بھی سیریزا کا طبقاتی تجزیہ نہیں کیا۔ اگر چہ انہوں نے سیریزا کی فتح کو جدوجہد کاثمر قرار دے کر خوش آمدید کہا تا ہم وہ ہمیشہ یہ حقیقت چھپاتے رہے کہ سیریزا در حقیقت ایک بور ژوا پا ر ٹی ہے جو محنت کشوں کی جدوجہد کو کچلنے اور وہ سخت گیر پا لیسیاں نا فذ کر نے کے لیے اقتدار میں لا ئی گئی تھی جو یونا نی دائیں بازو نافذ نہ کرپایا ۔ان پا ر ٹیوں کی طرف سے سیریزا کی حمایت کو ئی غلطی یا تنا ظر بنانے میں نظریاتی خامی کے با عث نہ تھی بلکہ انہوں نے اسکی اور اسکی پالیسیوں کی حمایت اس لیے کی کیونکہ اپنے اپنے ملکوں میں وہ بھی سیریزا کی طرح درمیانے طبقے کی امیر پرتوں سے تعلق رکھنے والی پا ر ٹیاں ہے جو اپنے طبقا تی مفادات کے حصول کے لیے سیریزا سے ملتی جلتی پا لیسیاں اپنا تیں ہیں۔اگر چہ انہوں نے سیریزا کے جو لائی میں اربوں یورو کے سخت گیر پیکج قبول کرنے کے بعد بظاہر اعتدال اختیار کر لیا مگر پھر بھی سیریزا کی حما یت جاری رکھی۔
لہذا فرانس کے لیفٹ پلیٹ فارم کے Jean-Luc Melenchon نے سپراس کیطرف سے ’’ نو‘‘کے ووٹ کو روند کر جو لا ئی میں سخت گریت نافذ کرنے کے بعد بھی اسکی حوصلہ افزائی جاری رکھی ’’ہم سپراس اور اسکی طرف سے یو نانی لو گوں کی مزاحمت کی اجازت پر اسکو سپورٹ کر تے ہیں ‘‘۔ لیفٹ فرنٹ کیطرف سے جا ری پریس ریلیز نے حقائق کو سر کے بل کر دیا ’’سپراس حکومت نے یورپ میں بے نظیر مزاحمت کی اس لیے اب وہ اپنے خلاف چھیڑی جانے والی جنگ میں جنگ بندی قبول کر رہا ہے۔ہم یہ جنگ ،اسکومسلط کرنے والوں اور انکے مقاصد کی مذمت کر تے ہیں‘‘۔سپین کی پوڈیموس پارٹی کے جنرل سیکٹری Pablo lglesias جس نے بار بارسپراس کی کمپین کی اور جسکی اپنی پارٹی سریزا کی طرز پر حکومت میںآنے کے لیے پر امید ہے نے یہ کہتے ہو ئے سپراس کی سخت گیریت پا لیسیوں پراسے معاف کر دیا کہ اسکے پاس سمجھوتے یا یورپی یو نین سے علیحدگی کے علاوہ کو ئی اور راستہ نہ تھا۔ وہ مزید فرماتے ہیں سپراس اصولوں کا پکا ہے لیکن دنیا داری اور سیاست میں طاقتوں کے توازن کی بنیاد پر فیصلہ کیا جا تاہے۔جو یو نانی حکومت نے کیا صدا افسوس کہ انکے پا س اسکے علاوہ کو ئی اور چارہ بھی نہ تھا۔ایک بار پھر یہ انتہائی واضح تنبیہ مناسب ہے کہ ایسی تمام پار ٹیاں جو سیریزا کے گند کو چھپا رہی ہیں انکا اپنا ارادہ بھی ایسا ہی راستہ اختیار کرنے کا ہے ۔آئی سی ایف آئی کو ان پا ر ٹیوں سے الگ کر نیوالی سیاسی اور طبقاتی خلیج نہا یت عمیق ہے۔ جہاں آئی سی ایف آئی نے سیریزا کی رجعتی پالیسیوں سے محنت کش کو بہت پہلے خبردار کیا وہیں ان پا ر ٹیوں نے سیریزا کے جرائم پر بھر پور پردہ ڈالا۔
ؑ ؑ EEK -7 کے مچل مٹاسسMichael Matsas کا کردار: انٹر نیشنل کمیٹی نے اپنے پاس دستیاب ہر ذریعے سے محنت کشوں تک اپنا تناظر اور تجزیہ پہچانے اور انہیں سیریزا کے کردار سے خبردار کرنے کی کوشش کی۔تا ہم اسکا یو نان میں کو ئی سیکشن نہیں ہے۔
اس سب کی سیا سی ذمہ داری یو نا نی محنت کشوں کی انقلا بی پا ر ٹی EEK کے جنرل سیکرٹری مچل مٹاسس پر عائد ہو تی ہے۔اس نے جیری ہیلے (Gerry Healy)ورکزرانقلابی پارٹی (WRP) کے ساتھ 1985 میں آئی سی ایف آئی کی پھوٹ میں آئی سی ایف آئی کے اس واحد دھڑے کی قیادت کی جس نے جیری ہیلے کی حمایت کی۔
مٹاسس کی آئی سی ایف آئی سے علیحدگی انتہائی بے اصولی پر مبنی تھی جسکے دوران اس نے کسی بھی د ھڑے سے مذاکرات سے انکار کر دیااور جیری ہیلے کی اجا زت کے بغیر ہر طرح کی میل ملاقات کوغیر موثر قرار دیا اور جیری ہیلے کو آئی سی ایف آئی کا تاریخی راہنما قرار دیا۔اس طرزعمل کی بنیادمٹاسس کی جیری ہیلے کے قومی مفادپر ستانہ سو چ سے مطابقت تھی ۔اس علیحدگی کو مٹاسس نے چوتھی انٹر نیشنل کے لیے ایک نئے دور کا آغاز قرار دیا جسکے دورا ن ٹراٹسکی ازم کو شکست ،اکیلے پن اورمجرد پروپیگنڈے سے آزاد ہو نا تھا۔ عملی طور پر اسکا نیا دور یونان میں پاسوک کی حمایت اور سوویت یو نین میں گوربا چوف کی کھلے پن کی پالیسی (پرسٹرائیکا) کی حمایت تھی جسکو اس نے سوویت یو نین میں سیاسی انقلاب کا آغاز قرار دیا۔بعد کی دیہائیوں میں اس نے سریزا کی حدود میں کام کیا۔
EEK نے الیکشن فتح سے پہلے کے چند مہینوں میں بڑی شدومد سے سریزا کی حمایت کی ۔اس نے دعویٰ کیا کہ یہKKE انٹارسیا بائیں بازو کی دوسری تنظیموں انار کسٹوں اور آمریت کے خلاف عناصر کو ایک طاقتور پاپولر یونائیڈ فرنٹ آف آل ورکرز بنا کر اسکا سریزاسے سیا سی اتحاد بنا کر سریزا کو بائیں بازو کیطرف دھکیلنے میں کامیاب ہو جائے گی ۔EEK نے ان سب سے جوسریزا کے بارے میں خوش فہمی رکھتے تھے مانگ کی وہ سریزا پر زور دیں کہ وہ سرمایہ داری سے اور اپنے اندر موجود موقع پر ستوں سے اپنی جان چھڑائے۔
تمام اتحادیوں کی طر ح EEK نے بھی ایک اہم نقطہ چھوڑ دیا کہ سریزا دراصل ایک بورژوا پا رٹی ہے۔مٹاسس محنت کشوں کو ان تنظیموں کی پیروی کی تلقین کر رہا تھا جنہوں نے فیصلہ کن ور پر خود کو محنت کش تحریک اور سو شلزم سے الگ کر کے سر مایہ دارانہ پا لیسیاں اپنا لیں تھیں۔محنت کشوں کو اس بات پر اکسانا کہ وہ سریزا سے سرمایہ داری سے نا طہ توڑنے کی ما نگ کریں دراصل انکو ابہام میں مبتلا کر کے ان سے اس بات کی نا گزیریت چھپانے کے مترادف تھا کہ سریزا نے با لآخر محنت کش طبقے کے خلاف نبرد آزماہو نا ہی تھا ۔سپراس اور ویرو فکاس جیسے سریزا کے سیاسی مجرم لیڈر سے یہ کہنا کہ وہ مفاد پر ستوں اور سرمایہ کے حامیوں سے اپنا پیچھا چھڑالیں دراصل چاند سے کھیلنے کی خواہش جیسا ہی تھا۔یونان میں اپنے سیا سی افعال کا دفاع کرتے ہوئے مٹاسس نے آئی سی ایف آئی کو فر قہ پر ستی کا طعنہ دیا۔آئی سی ایف آئی کا جرم یہ تھا کہ اس نے محنت کشوں کو سریزاکی بورژوا اصلیت کے بارے میں آگاہ کر تے ہو ئے اسکی طرف سے محنت کشوں سے ہونے والی غداری کے بارے میں خبردار کیا۔
الیکشن کے بعد سریزا کی فتح کی اہمیت کے بارے میں رائے دیتے ہوئے مٹاسس لکھتا ہے ’’ اگرچہ آئی سی ایف آئی نے سریزا کی بورژوا ہئیت کے بارے میں کافی کچھ درست لکھا تاہم ایک فرقہ پر ست گروہ ہونے کی وجہ سے جو کہ دستیاب مواقعوں کو دیکھنے سے محروم ہو تا ہے آئی سی ایف آئی اس فتح کی حقیقی اہمیت کو دیکھنے سے قاصر رہا ‘‘ ۔ نو ماہ بعد مٹاسس کو پر جو ش کرنے والے’’ مواقع‘‘ اور’’ عوامی تحریک ‘‘کا بیلنس شیٹ تیار کرنا ذرا بھی مشکل نہیں۔ سریزا نے یو رپی سرمایہ داروں کو موقع دیا کہ وہ اپنی سخت گیرمعاشی پالیسیوں کو جاری رکھ کہ لاکھوں یونانی محنت کشوں سے اربوں یورو لوٹ سکیں۔
جہا ں تک عوامی تحریک کی با ت ہے سریزا نے نہ تو محنت کش تحریک کی تعمیر کے لیے کچھ کیا اور نہ ہی اسکا ایسا کو ئی ارادہ ہے۔سریزا اب بورژوا سیا ست دانوں کے ایک گروہ اور ان کے حامیوں کے اقتدار میں حصول کے لیے ایک انتخابی مشین سے بڑھ کر کچھ نہیں ۔اس نے سخت گیریت کے خلاف محنت کشوں میں مو جو دہ طاقتوار تحریک کو دھوکہ دے کر اور انکا استحصال کر تے ہوئے نہ صرف یو نا نی سرمایہ داروں کا یورپی یونین کے ساتھ اتحاد برقرار رکھا بلکہ اسے ایک ذیلی لیکن نا گز یر فائدہ کے طور پر اپنی ذاتی خوشحال بڑھانے کے لیے استعمال کیا۔مٹاسس نے آئی سی ایف آئی کو فرقہ پرست کہہ کر اس لیے تنقید کی کیو نکہ آئی سی ایف آئی نے EEK کیطر ح سریزا کو آسمان پر نہیں چڑھایا۔آئی سی ایف آئی نے نہ صرف اس بات سے آگا ہ کیا کہ سریزا کی قیادت مکمل طور پر سرمایہ دارانہ ہے جسے مٹاسس پوری طرح سے نظر انداز کر دیتا ہے بلکہ یہ بھی کہ اس پا رٹی کی ہیئت ہی بورژوا ہے اور اس لیے محنت کشوں کو سریزا کی مخالفت کر نی چا ہیے اور آئی سی ایف آئی اسے مارکسزم کی ابجد سمجھتا ہے کہ محنت کشوں کو سرمایہ دار طبقے کے خلاف صف آراء کیا جا ئے تا ہم یہ سب باتیں EEK کے لیے ازحد نا قابل برداشت ہیں جسکی 1985 میں آئی سی ایف آئی سے علیحدگی اسکے مارکسز م سے و اضح انحراف کی غماز تھی۔
EEK نے سریزا کی تعریفوں میں کھو کھلی لیکن بھڑ کیلی اصلاحات استعمال کرتے ہوئے اسکی الیکشن میں فتح کی اہمیت واضح کی اور اسے محنت کشوں کے لیئے شاندار اور معلوماتی تجربہ کہہ کہ اسے خوش آمدید کہا۔ جب حکمران طبقے نے یونانی محنت کشوں کوسریزا کی شکل میں زہریلی گولی نگلنے کے لیے دی تو EEK نے آئی سی ایف آئی کیطرف سے محنت کشوں کو خبردار کر نے کی ہر کاوش رد کرنے کی بھر پور کوشش جاری رکھی۔EEK نے سیریزا کے کٹر شریکِ جرم اور یو نانی سرمایہ داری کے ایک رجعتی آلہ کارکا کردار ادا کیا۔
8 .آئی سی ایف آئی تعمیر کریں: یہ بات کھل کر کرنے کی ضرورت ہے کہ سریزا حکومت کا تجربہ محنت کشوں کے لیے بڑی شکست کے مترادف ہے۔ موجودہ سیا سی فریضہ یہ بنتاہے کہ اس سیاسی شکست کے سیاسی اسباق اخذ کیے جائیں اور آنے والے دنوں میں اُٹھنے والی محنت کشوں کی یو نا نی، یورپی اور عالمی سطح پر ابھرنے والی تحریکوں کے لیے انہیں سیاسی طور پر مسلح کیا جائے۔
حالیہ واقعات نے ثابت کر دیا کہ محنت کش اپنے چھوٹے سے چھوٹے حقوق کا دفاع بھی بورژو حکومتوں میں نہیں کر سکتے خواہ وہ حکومتیں نام نہاد بائیں بازو کے اتحادیوں سے اٹی پڑی ہوں اور نہ ہی وہ یہ مقاصداسطرح کی حکومتوں کو دباؤ میں لا کر حاصل کر سکتے ہیں۔سریزاکی پالیسیاں ثابت کر تیں ہیں کہ محنت کشوں کے پاس انقلابی راستے کے علاوہ اور کوئی دوسرا راستہ نہیں ۔حکمران طبقہ نے محنت کشوں کو اس بات کی یاد دہانی کروائی ہے کہ آخر روسی پرولتاریہ کیوں 1917 میں سرمایہ داری کو اُکھاڑنے پر مجبور ہوا تھا۔اس حکومت کا لائحہ عمل اکتوبر انقلاب کے بعد یورپی محنت کشوں کو ملنے والی ہر مراعت کا خا تمہ کر نا ہے۔محنت کشوں کو دہائیوں پیچھے دھکیلا جا رہاہے جہاں وہ اپنے مشرقی یورپ اور ایشیا ء کے ساتھیوں کی سطح پر آ گئے ہیں۔
لیکن یونان میں شکست کی ذمہ داری محنت کشوں پر نہیں آتی۔یو نا نی محنت کشوں نے طبقاتی جدوجہد کے عزم و استقلال میں کو ئی کمی نہیں دکھا ئی اور بارہا انہوں نے تحریک کے دوران اپنی انقلابی جبلت کا مظاہرہ کیا۔اسی طرح خود یورپی یو نین کے مظالم کا شکار دوسرے یورپی ممالک کے محنت کشوں نے یونانی محنت کشوں سے یکجہتی کا مظاہرہ کیا اورسریزا کیطرف سے ہو نے والی یو نا نی محنت کشوں پر حملوں کے خلاف غصہ اور بے اعتمادی ظاہر کی۔یو نانی محنت کش بڑھتے ہو ئے جبر اور نتیجتاً غم و غصہ کے باوجود خود رو طریقہ سے اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ کے لیے راہ نجات کیطرف نہیں بڑھ سکے جہاں وہ خود کو بلند سطح پرلے جا کر اپنے تاریخی فریضوں کو پورا کر تے نہ ہی اسکے اندر سے ایسی خور رو قیادت ابھر سکی جو محنت کشوں کو یو رپی یو نین اور بینکوں کی بے رحم یلغار کے خلاف فتح سے ہم کنارہ کر پاتی۔ اسکی بجائے محنت کشوں کے سماجی اختلاف کا اظہار سریزا کے ذریعے سے ہو تا رہا جس نے طرُفہ تما شے کے طور پر ان جھوٹے وعدوں کی بنیاد پر عوام کو اپنے پیچھے لگایا جنہیں وہ شعوری طور پر سبو تاژ کرنے کی تیاری کر رہے تھے۔سریزا کو ان تمام رحجانات کی خدمات حاصل رہیں جو یہ ابہام پیدا کرنے میں مصروف تھے کہ سریزا یو نا نی اور عالمی مالیاتی سر مائے کی پالیسیوں کے خلاف مزاحمت کرے گی۔یہ نام نہاد با ئیں بازو کی تمام پرتیں اب مالیا تی سر مائے کے آلہ کار کے طور پر ننگی ہو گئیں ہیں۔مرکزی فریضہ محنت کشوں کو سیاسی طور پر مسلح کر نے کا اور انکے لیے ایک ایسی انقلابی لیڈر شپ کی تشکیل ہے جو جو اس شکست کا با عث بننے والی مندرجہ بالا پارٹیوں، اشخاص اور سیا سی نظریات کا بے رحمانہ تجزیہ کرنے سے ممکن ہے۔
چو تھی انٹر نیشنل کی بین لا قوامی کیطرف سے کیے گئے یو نا نی واقعات سے متعلقہ کام کی اہمیت کی یہی وجہ ہے ۔یو نا ن، یورپ اور پوری دنیا میں محنت کش طبقہ اپنا دفاع صرف اور صرف نئی محنت کش پارٹیاں تعمیر کر کے کر سکتا ہے۔ایسی پا ر ٹیا ں جو سرمایہ داری سے ہر طرح کا رشتہ توڑتے ہو ئے بین الا قوامی انقلابی تنا ظر سے لیس ہوں اور سر ما یہ داری کا عا لمی سطح پر خاتمہ کر تے ہو ئے ایک عالمی محنت کش انقلاب کی تعمیر کیطرف بڑھ سکیں ۔چو تھی انٹر نیشنل کی بین لا قوامی کمیٹی ہی وہ واحد تنظیم ہے جو عالمی پیمانے پر محنت کشوں کو سرمایہ داری، غربت اور جنگ کے خلاف یکجا اور منظم کر سکتی ہے اسکی دہا ئیوں سے جاری مارکسزم اور ٹراٹسکی ازم کے نظر بات کے دفاع کے باعث اسکے پاس وہ ضروری سیا سی اور نظریاتی تجربہ ہے جو محنت کشوں کو تحریکوں کے آنے والے دور میں انہیں سیا سی طور پر مسلح کر نے کے لیے ضروری ہے۔اسکی چھ دہائیوں سے جاری ٹراٹسکی ازم کے تسلسل کے دفاع میں در پیش آنے والے تاریخی اور سیا سی مسا ئل اب عوامی تحریکوں کے بنیادی مسا ئل بن چکے ہیں۔
لا ئحہ عمل کا بنیادی سوال آج آئی سی ایف آئی کی تعمیر ہے ۔ہم یو نا نی اور بین لاقوامی با شعور محنت کشوں ،دانشوروں اور نو جوانوں سے درخواست کرتے ہیں اس تحریر میں دئیے گئے تناظر کی خا طر لڑنے کے لیے وہ سو شلسٹ انقلاب کی عالمی پا ر ٹی یعنی آئی سی ایف آئیICFI) ( میں شامل ہوجائیں۔