امریکہ نے خون آلود مشرق وسطی میں اپنے مفادات کی دوڑ میں ایک اور جنگ کا محاز کھول دیا ہے جو اس بار یمن ہے۔
بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اوبامہ انتظامیہ نے سعودی عرب کی پشت پناہی کرتے ہوئے یمن میں پانچویں روز جاری فضائی بمباری میں یمن کے انفرا سٹکچر اور اسٹریجک مقامات اور رہائشی علاقوں کونشانہ بنایا جارہاہے ابھی تک ان بمباریوں میں 39 شہری ہلاک ہوچکے ہیں جن میں6بچے بھی شامل ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہلاکتوں کی شرح آنے والے دنوں میں مزید تیزی سے اضافہ ہوگا۔ یہ تمام فوجی کاروائیاں امریکہ کی لوجیسیٹک سپورٹ سے کی جارہی ہیں۔ جن میں جیٹ طیارے اور بمبار شامل ہیں ۔ فضائی جنگ کے ساتھ ساتھ زمینی جنگ کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے جسکی قیادت سعودی عرب اور مصر کر رہے ہیں۔ سعودی عرب نے تقریباً 150,000افواج کو بمع بڑی آرٹلری کو یمن کے بارڈر کے ساتھ چوکس کردیا ہے۔ امریکہ کے تعاون سے یمن میں جاری جنگ کا مقصد یہ ہے کہ حوثی باغیوں کو شکست دی جاسکے جو سابقہ طویل مدت ڈکٹیٹر علی عبداللہ صالح کے وفادار ہیں اور جنہیں ایران کی پشت پنائی حاصل ہے۔ اوجنہوں نے یمن کے زیادہ تر مغربی صوبوں پر قبضہ جما رکھا ہے۔ واشنگٹن کی یہ کوشش ہے کہ کٹھ پتلی اورمحصور صدر منصور ہادی کو دوبارا اقتدار سونپ سکے جو اس ہفتے یمن کے جنوبی شہر عدن میں اسکی رہائش گاہ پر حوثی باغیوں کے حملے کے بعد سعوری عرب فرار ہوگیا تھا۔ امریکہ یہ بھی چاہتا ہے کہ وہ دوبارہ ا لعناد ائیربیس پر قبضہ کرئے جسے وہ 2009سے یمن میں ڈرون حملوں کے لئے استعمال کرتا چلاآرہا ہے ۔ان ڈرون حملوں میں اب تک ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں ۔ اس ایئر بیس پر بدھ کے روز حوثی باغیوں نے سعودی عرب کے یمن پر فضائی حملوں کے شروع ہونے سے پہلے ہی قبضہ کرلیا تھا۔
یمن میں جنگ بھڑکنے کی وجہ دراصل امریکی سامراج کی سالوں پر محیط مشرق وسط میں جارحیت ہے۔ ہادی کی حکومت نے 2012میں عبداللہ صالح کی حکومت کی جگہ لی اور امریکہ کے تعاون کے ساتھ برسرائے اقتدار آیا۔عبداللہ صالح کو بھی امریکی تعاون حاصل تھا جسکی حکومت بڑی حدتک اپنی حمایت کھو بیٹھی تھی جسکی بنیادی وجہ اس کی ڈرون حملوں کی حمایت تھی ۔ جیسے ہی یہ کٹھ پتلی حکومت ٹوٹی تو ملک تیزی کے ساتھ مسلح گروپوں اور پروکسی قوتوں کے درمیان فرقہ وارنہ لڑائیوں کی وجہ سے خانہ جنگی کی لپیٹ میں آگیا ۔ یمن میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر جاری جنگ میں یہ شدت موجود ہے کہ وہ پھٹ کر پورے مشرق وسط افریقہ اور وسطی ایشیاء کو فرقہ ورانہ جنگ اور تنازعوں کی میں لپیٹ لے سکتی ہے ۔ جن ممالک نے سعودی عرب کی حمایت کی ہے ان میں مراکش ، سوڈان ، جورڈن، بحرین، کویت، متحدہ عرب امارات اور قطر شامل ہیں اور دوسری جانب عراق، اور شام کی حکومتیں ہیں جو ایران کی حمایت میں ہیں اور اس جنگ کے خلاف ہیں۔ یمن کی صورت حال نے ایک بار پھر امریکہ کے جھوٹے دعوں کو افشاں کردیا ہے جس میں کہ اس کی خارجی پالیسی کی بنیاد جمہوریت ٗ انسانی حقوق کا دفاع اوردہشتگردی کے خلاف جنگ ہے ۔ امریکہ ریکشنری سعودی شہنشایت کی قیادت میں جس جنگ کی حمایت اور سپورٹ کررہا ہے جو ان کے اپنے لوگوں کا سر تن سے جدا کرتی ہے۔ جو القائد اور دوسرے سنی انتہا پسندوں کو فنڈ زمہیا کرتی ہیں اور مصر کے فوجی ڈکٹیٹروں جن کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے ہیں پھانسیوں پر عمل پیرا ہیں اورمزدوروں کو سرعام شاہراہوں میں گولیوں سے چھلنی کر رہے ہیں ۔
اگر ایک لفظ میں امریکن حکومت کے مفادات کویمن میں بیان کیا جائے تو ہو صرف تیل ہے۔ آبنائے باب المنداب اور مصر کی سوئز کینال جو بحیرہ روم کو بحیرہ ہند سے منسلک کرتی ہے یمن کے درمیان واقع پزید ہے تیل کی سب سے زیادہ برآمدات خلیج فارس کے راستے یورپ امریکہ اور ایشیا اس تنگ آبنائے باب المنداب سے گزرتی ہے ۔ جو بین الاقوامی تجارت کی اہم گزر گاہ ہے۔
واشنگٹن ڈی سی سینٹر کے اسٹریٹجک انٹرنیشل سٹڈی تھنک ٹینک کے بااثر خارجہ پالیسی کے سٹیٹجسٹ انتھونی کروڈ مین نے امریکن حکمران طبقے کے مفادات کویوں نما یا کیا ہے کہ 2013میں 3.8بلین بیرل تیل اور پٹرولیم کی مصنوعات اس ابنائے سے گزری ۔ کروڈ ڈومین نے حال ہی میں لکھا ہے کہ ہمارے مفادات کویہاں خطرہ لا حق ہے ۔ "ہمای سیکورٹی فوسز اور کارگو کی ترسیل پر زیادہ لاگت آتی ہے پھر مصر کے استحکام اور سعودی عرب کی کلیدی بنددگاہ جدہ پربھی خرچہ آتا ہے جو کہ خلیج فارس سے باہر واقع ہے"دوسرے الفاظ میں یہ جنگ اسٹیٹجک مفاد اور عالمی طاقت کیلئے ہے ۔ کروڈمین نے مزید کہا کہ امریکہ نے پہلے ہی سے کہاکہ وہ سعودی عرب کواس جنگ میں لاجسٹک اور انٹیلی جنس سپورٹ دے گا لیکن اس کے برعکس یمن کی صور ت حال ہمیں یہ بتا رہی ہے کہ ہمیں اس سے زیادہ کچھ کرنا پڑے گا یعنی براہ راست فوجی کارروائی ۔ یمن کی حالیہ جنگ نے ایک بار پھر امریکی عوام کو اس مجرمانہ جنگ میں گھسیٹ دیا ہے جو ان سے بحث اور پوچھے بغیر پلان کی گئی ہے اور ان پر مسلط کی گئی ہے ۔ جس کے بے پناہ منفی اثرات مرتب ہونگے۔ یمن میں فوجی مداخلت امریکی سامراج کی مشرق وسط اور سینٹرل ایشیا میں فوجی مداخلتوں کی نئی کڑی ہے جس نے ان خطوں کو تباہ و برباد کر دیاہے ۔
15سال پہلے شروع ہونے والی اس جنگ نے جودہشتگردی کے خلاف لڑی گئی نے پورے خطے کو انتشار و عدم استحکام اور بربادی سے دوچار کرکے رکھ دیا ہے ۔
افغانستان پر 2001کے حملے کے بعد عراق پر حملہ اور اس پر قبضہ کے نتیجے میں لاکھو ں افراد ہلاک اور پوری سوسائیٹی کو تباہ کردیا عراق کے بعد 2011میں لیبیا کو بموں کا نشانہ بنا کر صدرقذافی کو قتل کرکے اس کا تختہ الٹ دیاگیا جس کے لیبیا فرقہ ورانہ خانہ جنگی کی لپیٹ میں آگیا پھر 2011میں امریکہ نے شام میں خانہ جنگی کو ہوادی تاکہ صدر بشارالاسد کی حکومت کا تختہ الٹ سکے ۔ شام کی حکومت کا تختہ الٹنے کے عمل میں سی آئی اے نے القاعدہ سے منسلک اور دیگر مذہبی انتہا پسندوں کی امداد اور مدد کی جسکے نتیجے میں ان میں سے کچھ نے داعش (ISIS)کی بنیاد رکھی اس جاری خانہ جنگی کے نتیجے میں اب تک دو لاکھ افراد ہلاک اور لاکھو ں کی تعداد میں لوگ بے گھر ہوچکے ہیں۔ امریکہ اس وقت عراق اور شام میں نئی جنگ کے محاذ پر ہے جو داعش کے خلاف ہے اور موجود ہ حالات میں درحقیقت ایران کے ساتھ اتحادی ہے عراقی شیعہ ملیشیاجو اس وقت تکریت میں داعش کے خلاف لڑرہی ہے اوران کی فضائی مدد کر رہی ہے اور فضائی حملوں کے زریعے داعش کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہا ہے ۔ مشرق وسطہ سے باہر یوکرائن اس وقت شدید عدم استحکام اور ٹوٹنے کے دھانے پر ہے ۔ جس کی وجہ امریکہ کی مداخلت کے نتیجے میں فاشسٹ فورسز کی حمایت کرتے ہوئے کو دیتا کیا گیا اور انتہائی دائیں بازو کی روس مخالف حکومت کو اقتدار دیا گیا امریکن پالیسیوں کے نتیجے میں مشرقی یورپ کو بڑے پیمانے پر فوجی اڈوں میں تبدیل کردیا گیا ہے جس سے روس کے ساتھ نیوکلیئر جنگ کا خطرہ بڑھ گیا ہے اور ساتھ ہی امریکہ چین کے گرد گھیراتنگ کرنے کی پالیسیوں پر گامزن ہے اور اسکے خلاف فوجی اتحاد تشکیل دے رہا ہے اور چین کو اشتعال دلا رہا ہے تاکہ ایشیا کا محاصرہ کرسکے ۔
امریکہ کی لاپرواہی اور ناعاقبت اندیشی اسے ایک تباہی سے دوسری تباہی کی طرف لے جارہی ہے جس کے نتیجے میں اسے ایک انتہا سے دوسری انتہا کی جانب جھکنا پڑتا ہے اور پھر اسے نئے ایڈونچرز کرنے پڑتے ہیں ہر تباہ کن مداخلت کو نئی جنگ کے لئے جواز بنایا جاتا ہے ۔
امریکی حکمران طبقے کا ایک مستقل عزم اور اصول یہ ہے کہ وہ پوری دنیا پر اپنے مفادت کے حصول کے لئے اپنا غلبہ حاصل کرناچاہتاہے ۔
امریکہ کی بڑھتی اور پھیلتی ہوئی جنگ اور خارجی مداخلت سوویت یونین کے خاتمے کے بعد کی خارجہ پالیسی کا حصہ ہے جو اس خوش فہمی سے جڑی ہوئی ہے کہ دنیا پر اپنی بالادستی کو مسلط کرے ۔گذشتہ چوتھائی صدی سے زائد امریکی سامراج اس کوشش میں ہے کہ اپنی گرتی ہوئی معاشی پوزیشن کو اپنی اعلی فوجی طاقت کے بل بوتے پر روک سکے وہ تمام حکومتیں جو اس کی راہ میں روکاوٹ ہیں اسے ڈرا دھمکا یا پھر تباہ کرکے اور سامراجی اتحادیوں کو دھمکی دے کر اپنے گلوبل عزائم کی تکمیل کرسکے۔
امریکہ کی یہ پاگل عالمی بالا دستی کی دوڑ او راسکے مالیاتی اشرافیہ اور کارپوریٹس دنیا کو تیسری عالمی جنگ (نیوکلیئر ) کی جانب دھکیل رہے ہیں اور اس کرہ عرض پر انسانیت کو اس نیوکلیئر ہولوکاسٹ سے شدید خطرہ ہے ۔ صرف اور صرف امریکہ کو اس جنگی جنون کی دوڑ سے عالمی مزدور طبقہ ہی لگام دے سکتا ہے جو انقلابی سوشلسٹ پروگرام پر منظم ہو۔