تائیوان کو اُس وقت ایک مؤثر فوجی ناکہ بندی کا نشانہ بنایا گیا جب چین نے جزیرے کی حدود میں گولہ بارود کو نشانہ بنانے کی لائیو فائر مشقیں کیں۔ دو چینی طیارہ بردار بحری جہاز تائیوان کی طرف بڑھ رہے ہیں ان کا سامنا ایک امریکی طیارہ بردار جنگی گروپ اور دو ایمفیبیئس ریڈی گروپس (آے آر جی) سے ہے جو قریبی سمندری پانیوں میں کام کر رہے ہیں۔
پہلے سیایک فوجی بحران کے دوران جس سے یوکرین میں روس کے خلاف جاری جنگ کو منظر عام سیاوجھل ہونے کا خطرہ ہے، کسی بھی امریکی میڈیا شخصیت نے سنجیدگی سے وضاحت کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی اور اس غافل سوال: کو بہت کم پوچھا ہے، یہ کہ امریکی ایوان کے اسپیکر وائٹ ہاؤس کی حمایت سے تائیوان کو کیوں گئے؟
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جان کربی کا یہ دعویٰ کہ اس دورے سے چین کے ساتھ امریکی تعلقات کے بارے میں 'کچھ بھی نہیں' بدلا ہے سراسر مضحکہ خیز ہے۔
ٹرمپ اور بائیڈن انتظامیہ نے ایسے اقدامات کی نشاندہی کی تھی جن کو چین اپنی خودمختاری کی ناقابل قبول خلاف ورزیوں کے طور پر دیکھتا ہے اور انہیں ایک کے بعد ایک کرنے کے لیے آگے بڑھا، 1970 کی دہائی سے امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے والی ون چائنا پالیسی کو منظم طریقے سے ختم کر دیا۔
امریکی صدر جو بائیڈن اچھی طرح جانتے ہیں یہ کہ چین نے عوامی طور پر خبردار کیا ہے کہ اگر امریکہ ون چائنا پالیسی کو مسترد کرتا ہے اور اس طرح مؤثر طریقے سے تائیوان کو ایک آزاد ملک کے طور پر تسلیم کرتا ہے تو چین اس جزیرے پر دوبارہ فوجی قبضہ کر لے گا۔ اور بائیڈن نے وعدہ کیا ہے کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو وہ چین کے خلاف جنگ کریں گے۔
دوسرے لفظوں میں بائیڈن انتظامیہ ایک ایسا عمل انجام دے رہی ہے جسے وہ شعوری طور پر جانتی ہے کہ دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک کے ساتھ فوجی تصادم کا باعث بنے گا۔ بائیڈن، عملی یا حقیقی(ڈی فیکٹو یا ڈی جیور) طور پر چین کے ساتھ جنگ کی حالت چاہتے ہیں جسے واشنگٹن میں امریکی عالمی تسلط کی راہ میں سب سے بڑا خطرہ سمجھا جاتا ہے۔
پچھلے سال مارچ میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا تھا کہ بائیڈن نے 'محکمہ دفاع کو چین کو چیلنج کے طور پر روکنے کی ہدایت کی تھی۔' بلنکن نے مزید کہا، 'چین واحد ملک ہے جس کے پاس معاشی، سفارتی، فوجی اور تکنیکی طاقت ہے جس نے مستحکم اور کھلے بین الاقوامی نظام کو سنجیدگی سے چیلنج کیا ہے۔'
چین کے ساتھ جنگ کی جانب بڑھنے کے لیے امریکی جیوسٹٹیجک محرکات 2018 کی قومی دفاعی حکمت عملی کے پرنسپل مصنف ایلبرج کولبی نے بیان کیے، جنہوں نے منگل کو ٹویٹر کیا کہ تائیوان پر چین کے ساتھ تعطل 'امریکیوں کے ٹھوس اقتصادی مفادات کے لیے معنی رکھتا ہے۔'
جب تک چین کا فوجی محاصرہ نہیں کیا جاتا، کولبی نے ایک ایسے مستقبل کے بارے میں خبردار کیا ہے جس میں 'چین کا عالمی جی ڈی پی میں 50 فیصد سے زیادہ پر کنٹرول کرنے والا اثر و رسوخ ہوگا۔ یہ عالمی معیشت کا دربان اور مرکز ہوگا۔' اور، 'یوآن ایک غالب کرنسی ہو گی۔'
کولبی نے اپنی 2021 کی کتاب حکمت عملی کی تردید(The Strategy of Denial) میں، چین کو فوجی کارروائی کی طرف راغب کرنے کی پالیسی کی وکالت کی۔ 'شاید یہ یقینی بنانے کا سب سے واضح اور کبھی کبھی سب سے اہم طریقہ یہ ہے کہ چین کو (جارح کے طور پر) پیش کیا جائے صرف اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ وہ جنگ میں پہل کرنے والا ہے۔ بہت کم لوگوں کی اخلاقی بصیرت اس مفروضے کی جانب زیادہ گہرئی ہوتی ہیکہ حملے یا جنگ کی ابتدا کرنے والا ہی جارح ہے اور اس لیے اخلاقی ذمہ داری کا زیادہ حصہ دار بھی ہے۔
دوسرے لفظوں میں، امریکہ چین کی تمام 'سرخ لکیروں' کو عبور کرنے کی نشاندہی کی کوشش کر رہا ہے، اور اگر پھر جب چین فوجی کارروائی کے ساتھ جواب دیتا ہے تو حیران ہونے کا بہانہ کرتا ہے۔
امریکی سامراج کے جیو پولیٹیکل مقاصد امریکی جنگی مہم کا صرف ایک جزو ہیں۔ جیسے اندرونی طور پر ایک بے قابو طبی، معاشی اور سماجی بحران کا سامنا ہے، امریکی حکمران طبقہ فوجی تنازعات کو 'قومی اتحاد' کو محفوظ بنانے کے لیے استعمال کرنے کے لیے بے چین ہے۔
چین کے ساتھ تنازعات میں اضافے کے ساتھ ساتھ محنت کش طبقے کے سماجی اور معاشی حقوق پر شدید حملے ہوں گے اور یہ مطالبہ کیا جائے گا کہ مزدور جنگی کوششوں کے نام پر اپنا معیار زندگی قربان کریں۔
بائیڈن کے پاگل اور قتل عام کے جنگی منصوبے کو پوری امریکی سیاسی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے اور اسے عملی کیا گیا ہے۔
ریپبلکن سینیٹ کے رہنما مچ میک کونل نے منگل کو 25 دیگر سینیٹ ریپبلکنز کے ہمراہ ایک بیان شائع کیا جس میں اعلان کیا گیا، 'ہم ایوانِ نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی کے تائیوان کے دورے کی حمایت کرتے ہیں۔'
وال سٹریٹ جرنل میں ایک اداریے میں 'تائیوان کا بحران عروج پر ہے' اخبار جو ریپبلکن سے منسلک ہے مزید لکھتا ہے کہ 'اسلحے کی ترسیل کو تیزی سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اور اس قسم کی جو ممکنہ حملے کو روکنے کے لیے سب سے زیادہ کام کرے گی۔'
سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر باب مینینڈیز نے نیو یارک ٹائمز کے آپشن مضمون میں پیلوسی کے سفر کی تعریف کرتے ہوئے لکھا، 'محترمہ۔ پیلوسی نے چین کو یہ فیصلہ نہیں کرنے دیا کہ کون تائیوان کا دورہ کر سکتا ہے اور کون نہیں جا سکتا۔
مینینڈیز نے بیان میں مزید کہا کہ وہ اور ریپبلکن سینیٹر لنڈسے گراہم تائیوان پالیسی ایکٹ 2022 کے عنوان سے ایک بل متعارف کرائیں گے جو تائیوان کو مسلح کرنے کے لیے امریکی فوجی اخراجات میں اضافہ کرے گا۔
مینینڈیز نے لکھا:
ہماری قانون سازی اگلے چار سالوں میں تقریباً 4.5 بلین ڈالر کی سیکورٹی امداد فراہم کر کے اور تائیوان کو ایک 'اہم غیر نیٹو اتحادی' کے طور پر تسلیم کر کے تائیوان کی سلامتی کو تقویت دے گی جو کہ قریبی فوجی اور سکیورٹی تعلقات کو آسان بنانے کے لیے ایک طاقتور عہدہ کی حثیت کا حامل ہو گا۔ یہ بین الاقوامی تنظیموں اور کثیرالطرفہ تجارتی معاہدوں میں شرکت کے ذریعے تائیوان کے سفارتی میدان کو بھی وسعت دے گا۔
عملی معنوں میں اس سے امریکہ کی ون چائنا پالیسی کا موثر خاتمہ ہو گا۔ دوسرے لفظوں میں، ڈیموکریٹس ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسوں کو اپناتے ہوئے قبول کر رہے ہیں۔
چین کے ساتھ جنگ بھڑکانے کی بائیڈن کی کوششوں کے دوران ڈیموکریٹک پارٹی کے 'ترقی پسند' ونگ کی شکل میں سینیٹرز برنی سینڈرز اور الزبتھ وارن نے پیلوسی کے سفر پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے، اور صحافیوں کے براہ راست سوالات کے جواب دینے سے انکار کر دیا ہے۔
لیکن سینڈرز کا رویہ اس کے قائم مقام خارجہ پالیسی کے مشیر میٹ ڈس کے بیانات سے واضح ہوتا ہے، جس نے دی انٹرسیپٹ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں امریکی فوج کی بڑھانے کے مقاصد کی مکمل حمایت کی۔
ڈس نے 'تائیوان کے لیے سیکورٹی کو بہتر بنانے' اور“ تائیوان کی سیکورٹی اور اپنے دفاع' کو ترجیح دینے کی وکالت کی۔
پیلوسی کے تائیوان کے دورے کے نتائج کے بارے میں خبردار کرنے والوں کی 'بڑے پیمانے پر خطرے کی افراط زر' کی مذمت کرتے ہوئے، ڈس نے کہا، 'تائیوان کے حوالے سے خطرے کی افراط زر کے انداز میں داخل ہونا ان کے نتیجہ کے برعکس ہے”۔
دوسرے لفظوں میں، اصل مسئلہ آتش زنی کرنے والے پیلوسی اور امریکی فوج کا نہیں ہے بلکہ وہ لوگ ہیں جو خبردار کرتے ہیں کہ پیلوسی کے اقدامات سے پوری انسانیت کو خطرہ لاحق ہے، انٹرسیپٹ انٹرویو لینے والے نے 'ترقی پسندوں' کی مذمت کی جو 'امریکی چین تعلقات کو بنیادی طور پر امریکی اقدامات اور کاروائی کے بارے میں پیش کرتے ہیں جب آپ جانتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ چین میں آمریت عروج پر ہے۔'
یہ بیانات اور تبصرے اس بات ایک بار پھر واضح ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ ڈیموکریٹک پارٹی یا امریکی سیاسی اسٹیبلشمنٹ کا کوئی بھی حصہ ایسا نہیں ہے جو امریکی عسکریت پسندی کی سنجیدگی سے مخالفت کرتا ہو چاہے وائٹ ہاؤس کے اقدامات کتنے ہی بے رحم یا خطرناک کیوں نہ ہوں۔
پوری امریکی سیاسی اسٹیبلشمنٹ یکجا ہو کر چین کے خلاف شدت کو تیزی سے بڑھا رہی ہے یہ محنت کش طبقہ ہے جو جنگ کے خلاف جدوجہد کے لیے سماجی بنیاد بناتا ہے۔ محنت کشوں کو جو پہلے سے ہی ایک بڑے پیمانے پر زندگی گزارنے کے بحران اور بڑھتی ہوئی کساد بازاری کا سامنا کر رہے ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ امریکہ کی متعصب نسلی چین مخالف مہم کے نام پر 'قربانی' کو مسترد کر دیں اور جنگ کے خلاف جدوجہد میں اپنے چینی ساتھی مزدورں کے ساتھ متحد ہو جائیں۔