اُردُو

سری لنکا کے جے وی پی پارٹی کے نئے صدر ایک "مضبوط حکومت" کے لیے مہم کیوں چلا رہے ہیں؟

یہ 18 اکتوبر 2024 کو انگریزی میں شائع ہونے والے 'Why is Sri Lanka’s new JVP president campaigning for a 'strong government' ' اس ارٹیکل کا اردو ترجمہ ہے

سری لنکا کے نومنتخب صدر انورا کمارا ڈسانائیکے نے ملک کے 14 نومبر کو ہونے والے قومی پارلیمانی انتخابات کے لیے اپنی پارٹی کے امیدواروں پر زور دیا ہے کہ وہ ایک 'مضبوط حکومت' کے لیے کام تیز کریں۔

13 اکتوبر کو نیشنل پیپلز پاور (این پی پی) کے تقریباً 500 امیدوار اور کارکنان جو جنتا ویمکتھی پیرامونا (جے وی پی اور پیپلز لبریشن فرنٹ) کے انتخابی محاذ کولمبو کے مضافات میں واقع گرینڈ مونارک ہوٹل کے آڈیٹوریم میں ڈسانائیکے کی تقریر سننے کے لیے جمع ہوئے۔

گزشتہ ماہ اپنا عہدہ سنبھالنے کے 24 گھنٹوں کے اندر ڈسانائیکے نے صدارتی طاقت کے وسیع تر اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے پارلیمان کو تحلیل کرتے ہوئے قبل از فوری عام انتخابات کرانے کا حکم جاری کیا۔

سری لنکا کے نئے صدر انورا کمارا ڈسانائیکے کے پیچھے سیکیورٹی فورسز کے کمانڈر کھڑے ہیں سری لنکا کے صدر کے دفتر میں حلف برداری کے بعد ایک اجتماع سے خطاب کر رہے ہیں، سموار 23 ستمبر 2024 کو کولمبو سری لنکا میں [اے پی فوٹو/ سری لنکا کے صدر کا دفتر ] [AP Photo/Sri Lankan President's Office]

این پی پی کے امیدواروں سے بات کرتے ہوئے ڈسانائیکے نے افسوس کا اظہار کیا کہ جب کہ 'ہم ایک نیا نظریہ اور پروگرام لے کر آئے ہیں ' جے وی پی کی زیر قیادت نئی حکومت کے پاس صرف تین رکنی کابینہ ہے جس میں وہ خود اور صرف دو دیگر قانون ساز جے وی پی اور این پی پی پر مشتمل ہیں۔ سبکدوش ہونے والی 225 رکنی پارلیمنٹ میں یہ 'کسی بھی طور پر کافی نہیں ہے،' انہوں نے مزید کہا کہ 'ہمیں جو چیلنج درپیش ہے وہ 14 نومبر کو ہونے والے انتخابات ہیں اس ہمیں اکثریت حاصل کرنا ہو گی تاکہ ہمیں پارلیمنٹ میں ایک مضبوط طاقت حاصل کر کے ابھریں۔'

ڈسانائیکے نے جے وی پی اور این پی پی کے نظریے کے بارے میں کچھ نہیں کہا جسے سری لنکا اور بین الاقوامی میڈیا نے 'بائیں بازو' کے طور پر اسکی جھوٹی توصیف کی ہے جبکہ یہ سری لنکا کی قوم پرستی اور سنہالا شاونزم میں ڈوبی ہوئی ہے اور فوجی سیکورٹی آپریٹس کے ساتھ جڑی ہوئی ہے ' جو سوشلزم سے کہیں زیادہ فاشزم سے مشابہت رکھتی ہے۔

ڈسانائیکے نے پارٹی کے پروگرام کے بارے میں بھی کچھ نہیں کہا صرف جے وی پی- این پی پی کے مسلسل پرانی گھسی پٹی باتوں اور جھوٹ پر مبنی بیانیے کو دہراتے ہوئے کہا کہ جزیرے کو تباہ کرنے والے شدید سماجی و اقتصادی بحران پر تیزی سے قابو پایا جا سکتا ہے، اگر صرف 'بدعنوانی، دھوکہ دہی اور اقربا پروری' جیسے روایتی سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے پروان چڑھایا گیا ہے جس سے اب جڑ سے اکھاڑ پھینکا گیا ہے۔

درحقیقت جے وی پی- این پی پی مکمل طور پر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی طرف سے طے شدہ آسٹریٹی کو لاگو کرنے کے لیے پرعزم ہے- جس میں صحت کی دیکھ بھال، تعلیم اور حکومتی اخراجات کو کم کرنے کے لیے سبسڈیز پر خاتمے کے ساتھ ٹیکسوں میں مزید اضافہ اور ان محصولات کے ذریعے بڑے بنیادی بجٹ کے سرپلسز کو جمع کرنا ہے اور سرکاری اداروں کو کوڑی کے دام فروخت کرنا اور پبلک سیکٹر کی آدھی ملین نوکریوں کو ختم کرنا ہے۔

یہ سب کچھ 'قرض کی پائیداری' کو حاصل کرنے کے لیے ہے تاکہ اسے یقینی بنایا جائے کہ عالمی سرمایہ کاروں کو ادائیگی ضروری کی جائے اور معیشت کو ملکی اور بین الاقوامی سرمائے کے لیے زیادہ منافع بخش بنایا جائے۔

اپنی تقریر میں ڈسانائیکے نے کہا کہ جے وی پی- این پی پی کو پارلیمنٹ کو نہ صرف بڑھتی ہوئی تعداد سے بلکہ 'معیار' کے ارکان سے بھرنا چاہیے۔ جے وی پی- این پی پی کی طرف سے 'معیار' کے امیدوار بڑے پیمانے پر تاجر، ریٹائرڈ فوجی افسران، ٹیکنو کریٹس اور دیگر متوسط ​​طبقے کے عناصر ہیں جو 'ملک کی تعمیر نو' کی قوم پرست نعرے کے تحت آئی ایم ایف کی آسٹریٹی کی حمایت کریں گے۔ ان میں ارونا جے سیکرا جو ایک ریٹائرڈ میجر جنرل ہے اور سری لنکا کی ریاست کی تامل اقلیت کے خلاف نسل پرستانہ جنگ کے دوران مشرقی ونگ کے سابق کمانڈر رہے ہیں۔ اسکے علاوہ کارپوریٹ ایگزیکٹوز ایرنگا اُدیش ویراتنے اور ڈاکٹر ہرشنا سوریاپرما شامل ہیں۔

جیسا کہ حال ہی میں مکمل ہونے والی صدارتی انتخابی مہم میں عالمی سرمایہ داری اور سری لنکا کے بحران کا اثر ملک کے محنت کشوں پر مسلط کرنے کے اپنے ارادے کو دھندلا دینا چاہتا ہے جسے جے وی پی-این پی پی نے اپنے انتخابی منشور“فروخ پزیر قوم اور خوبصورت ملک“ کے عنوان سے لفاظیت سے بھرپور ایک پمفلٹ پیش کیا تھا۔

جے وی پی-این پی پی کی جیت کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ مثبت تبدیلی آچکی ہے، ڈسانائیکے نے اجتماع سے کہا کہ ’’سیاست سے ریٹائر ہونے کا خیال‘‘ پرانے سیاسی کلچر سے ایک تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے جہاں سیاست دانوں کے لیے ہارنا یا مرنا صرف دو ہی نتائج تھے۔ '

یہاں وہ اس حقیقت کا تذکرہ کر رہے تھے کہ روایتی حکمران جماعتوں کے کئی سرکردہ شخصیات جن میں یونائیٹڈ نیشنل پارٹی، سری لنکا فریڈم پارٹی (ایس ایل ایف پی) اور ایس ایل ایف پی سے الگ ہونے والی سری لنکا پوڈوجانا پیرمونا کے بشمول تین سابق صدور رانیل وکرما سنگھے، میتھری پالا سری سینا اور مہندا راجا پاکسے نے اعلان کیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ سے 'ریٹائر' ہو رہے ہیں۔

کولمبو سری لنکا میں جمعرات 28 اپریل 2022 کو ہڑتال صدر گوتابایا راجا پاکسے سے مستعفی ہونے کا مطالبہ۔ [اے پی فوٹو/ایرانگا جے وردنے] [AP Photo/Eranga Jayawardena]

صدارت جیتنے میں ڈسانائیکے اور اس کی جے وی پی- این پی پی روایتی سیاسی اسٹیبلشمنٹ پر محنت کش طبقے کے بڑے پیمانے پر انکے خلاف غصے اور عدم اطمینان کا منافقانہ طور پر فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہے جو 2022 میں ایک عوامی بغاوت میں پھٹ گیا تھا جس نے صدر گوتابایا راجا پاکسے کو اقتدار سے ہٹا دیا تھا۔ ڈسانائیکے کے 2019 کے صدارتی انتخابات میں لگ بھگ 440,000 لیے تھے جو اس مرتبہ دس گنا سے زیادہ بڑھ کر 5.6 ملین ہو گئے یعنی 42 فیصد سے زیادہ ووٹ 2024 میں حاصل کیے۔

اپنی 13 اکتوبر کی تقریر میں ڈسانائیکے نے پارٹی کے امیدواروں پر زور دیا کہ وہ زبردست پارلیمانی اکثریت حاصل کرنے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کی 'کمزوری' کا فائدہ اٹھائیں۔ ایک 'مضبوط حکومت' کے لیے اس مہم کا شفاف مقصد حکومت کے ہاتھ کو مضبوط کرنا ہے تاکہ آنے والی ناگزیر عوامی مخالفت کا مقابلہ کیا جا سکے جو جے وی پی- این پی پی حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کی وحشیانہ آسٹریٹی کے لیے محنت کش طبقے کے اندر ابھر کر سامنے آئے گی۔

حکمران اشرافیہ کے اہم حصے اب اس بات کا اشارہ دے رہے ہیں کہ وہ 'مستحکم' یا اکثریتی جے وی پی- این پی پی زیرقیادت حکومت کے لیے ڈسانائیکے کے عزائم کی حمایت کرتے ہیں۔ اس سے نہ صرف اس کے پروگرام کو پارلیمنٹ کے ذریعے تیزی سے منتقل کرنے میں آسانی ہوگی اور اسے تمام اپوزیشن سے محفوظ راستہ ملے گا اور میڈیا اور حکمران طبقے کی جانب سے اسکے رجعتی سامراج نواز ایجنڈے کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج اور ہڑتالوں کو 'ناجائز،' 'جمہوریت مخالف' اور 'ملک دشمن' قرار دے گا۔

11 اکتوبر کو کولمبو میں قائم ڈیلی مرر نے ایک اداریہ لکھا جس میں نئی ​​حکومت پر تنقید کرنے والوں کی مذمت کی گئی۔ اس نے زور دیتے ہوئے وضاحت کی کہ 'نوجوان صدر اے کے ڈی [انورا کمارا ڈسانائیکے]' پر ' خاص اداروں میں اپنے قریبی ساتھیوں کی تقرری' اور 'انتخابی وعدوں کو پورا نہ کرنے' جیسے کہ مہنگائی میں کمی اور آئی ایم ایف کے معاہدے میں تبدیلیوں جس سے غریبوں کی مشکلات کم ہو سکیں پر ایک حملہ ہے۔

ڈسانائیکے اور اس کے جے وی پی - این پی پی کے وکیل کے طور پر کام کرتے ہوئے مرر کے ایڈیٹرز نے دلیل دی کہ صرف 'مٹھی بھر' قریبی ساتھیوں کی تقرری ہوئی ہیں اور حکومت نے آج تک 'آئی ایم ایف کے ساتھ صرف ایک ملاقات کی ہے۔'

اس کے بعد اخبار نے سری لنکا کی سرمایہ داری کو درپیش دھماکہ خیز معاشی اور سیاسی صورتحال کی طرف اشارہ کیا کہ 'ہماری بندرگاہوں میں مقابلہ کرنے والی بڑی علاقائی طاقتوں کے جنگی جہازوں کے علاوہ امریکی جنگی جہازوں کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارا ملک کس مالی، سیاسی اور بین الاقوامی الجھن میں ہے۔' نئی حکومت کو کمزور کرنے کے خلاف تنبیہ کرتے ہوئے اداریہ مزید بیان کرتا ہے کہ 'ہمارے کچھ سابق صدور کے اقدامات نے موجودہ صدر کے لیے بہت کم گنجائش چھوڑی ہے اس نے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے لکھا کہ ہم اس عام انتخابات میں کس طرح ووٹ ڈالتے ہیں' 'لہذا یہ بہت اہم ہے۔'

اسی دن اخبار آئس لینڈ نے ایک اداریہ لکھا جس میں کہا گیا تھا کہ 'سیاسی حلقوں میں ایک لطیفہ گردش کر رہا ہے' کہ 'رانیل (وکرما سنگھے) چلے گئے (صدر کے طور پر) لیکن وہ واپس آ گئے ہیں!' وکرما سنگھے نے جو پالیسیاں 'جرات کے ساتھ نافذ کیں،' اخبار نے وضاحت کرتے ہوئے لکھا کہ وہ 'نئے نظام کے تحت برقرار ہیں۔ 

'سنگین معاشی حقیقت نے صدر ڈسانائیکے کی سوچ پر ایک نرم اثر ڈالا ہے جو کہ موجود نہیں ہے وہ یہ کہ این پی پی 14 نومبر کے عام انتخابات میں پارلیمانی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہونے کے باوجود ایک بہتر متبادل کی ضرورت کے لیے آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکج پر قائم رہے گی۔ '

گویا اس نکتے کو ثابت کرنے کے لیے جے وی پی پولٹ بیورو کے رکن اور تین رکنی جے وی پی-این پی پی کابینہ کے ترجمان وجیتھا ہیراتھ نے اعلان کیا کہ حکومت 10 لاکھ سے زائد پبلک سیکٹر ورکرز کے لیے تنخواہوں میں اضافے کو معطل کر رہی ہے جو اگلے سال نئی حکومت میں نافذ العمل ہو گا۔ 

صدارتی انتخابی مہم کے باضابطہ آغاز سے عین قبل وکرم سنگھے نے برسوں کی مہنگائی کے بعد کم از کم تنخواہ میں 25 فیصد اضافے کا اعلان کیا۔ 2022 میں سری لنکا کے محنت کشوں کی حقیقی اجرت میں 27 فیصد اور 2023 میں بڑے پیمانے پر مہنگائی کی وجہ سے 23 فیصد کمی واقع ہوئی۔

ہیراتھ نے دعویٰ کیا کہ وکرما سنگھے نے انتخابی موقع پر تنخواہوں میں اضافے کا اعلان کرنے سے پہلے وزارت خزانہ کے ساتھ مناسب طریقے سے مشاورت نہیں کی تھی اور ملک کی مالی صورتحال پر مناسب غور نہیں کیا گیا تھا۔ اس نے کہا کہ جے وی پی - این پی پی نے 'کبھی' 'اس طرح کی کوئی چیز' کا وعدہ نہیں کیا۔

درحقیقت 4 ستمبر کو ایک این پی پی بزنس فورم سے خطاب کرتے ہوئے ڈسانائیکے نے وکرما سنگھے اور ایس جے پی کے لیڈر ساجیت پریماداسا دونوں پر یہ کہہ کر تنقید کی کہ وہ پبلک سیکٹر کی اجرت میں اضافہ کریں گے۔ ملک کے معاشی بحران کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اور خود کو مالیاتی نظم و ضبط کا بہترین نفاذ کرنے والے کے طور پر پیش کرتے ہوئے جے وی پی- این پی پی لیڈر نے اس طرح کی اجرت میں اضافے کو 'مہلک' قرار دیا۔

ڈسانائیکے اور جے وی پی- این پی پی حکومت بھی وکرما سنگھے کے نقش قدم پر چل رہی ہے جو بحر ہند کے اہم جہاز رانی کے سری لنکا راستوں کو چین کے خلاف امریکہ کی زیرقیادت فوجی اسٹریٹجک حملے کے لیے گہری سے مزید آگے بڑھا رہی ہے۔ حکمران طبقے کو یہ ظاہر کرنے کی اپنی کوشش کے ایک حصے کے طور پر کہ اقتدار کی لگام کے ساتھ اس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے، جے وی پی نے حالیہ برسوں میں پر جوش انداز میں واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کو آگے بڑھایا ہے جس میں سری لنکا میں امریکی سفیر جولی چنگ کے ساتھ ملاقاتوں میں بار بار اس عزم کا اظہار کیا کہ خطے میں امریکی سامراج کے سب سے بڑے اتحادی بھارت کے 'اسٹریٹیجک مفادات' کے خلاف کچھ نہیں کرئے گا۔ اس ماہ کے شروع میں امریکی بحرالکاہل کے بحری بیڑے کے سربراہ ایڈمرل اسٹیو کوہلر نے کولمبو کا دورہ کیا اور ڈیسانائیکے سے ملاقات کی۔

سوشلسٹ ایکویلیٹی پارٹی محنت کش لوگوں کو خبردار کرتی ہے کی جہاں تک آئی ایم ایف اور حکمران طبقے نے اسے اجازت دی ہے ڈیسانائیکے قومی انتخابات کے اختتام تک وقت نکال رہے ہیں اس وقت وہ آئی ایم ایف کے اگلے تنظیم نو کے پروگرام کے اور بھی سخت شرائط کے ساتھ اگلے مرحلے میں آسٹریٹی اور نجی کاری کو تیزی سے آگے بڑھیں گے۔

اور یقینی طور پر محنت کش طبقے کی مخالفت کا سامنا کرتے ہوئے حکومت اپنے پیشروؤں کے اختیار کردہ جمہوریت مخالف قوانین کی بیٹری کو استعمال کرے گی اور ایک طرف ایگزیکٹو صدارت کے آمرانہ اختیارات کا بیدریخ استعمال کرے گی اور دوسری طرف سنہالا شاونزم کو ہوا دے گی۔

جے وی پی- این پی پی کی طرف سے ملٹری سیکورٹی اپریٹس اور تمل مخالف جنگ کے سابق فوجیوں 'ریٹائرڈ ٹرائی فورسز کلیکٹیوز' اور 'ریٹائرڈ پولیس آفیسرز کلیکٹو' کی حمایت کو ایک واضع انتباہ کے طور پر لیا جانا چاہیے۔

ایس ای پی 14 نومبر کے انتخابات میں مداخلت کر رہی ہے کولمبو، نوارا ایلیا اور جافنا اضلاع میں 41 امیدواروں کو میدان میں اتار گیا ہے تاکہ محنت کش طبقے کی ایک آزاد سیاسی تحریک کو فروغ دینے کے لیے دیہی اور شہری غریبوں کو ڈسانائیکی حکومت کی آسٹریٹی اور جابرانہ نظام کا مقابلہ کرنے کے لیے جدوجہد کو آگے بڑھایا جا سکے۔ 

جیسا کہ ہمارے انتخابی اعلان نے وضاحت کی ہے کہ عوام کو کس بھی بنیادی مسلے بشمول سماجی بحران کا جو سامنا ہے یا آمریت یا پھر عالمی جنگ کا ابھرتا ہوا خطرہ کا کوئی حل سرمایہ دارانہ نظام کے اندر اور قومی بنیادوں پر ممکن نیں ہے۔

ہم مزدوروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ سرمایہ دارانہ ٹریڈ یونین بیوروکریسیوں، تمام سرمایہ دار پارٹیوں اور جعلی بائیں بازو کے گروہوں کو مسترد کر دیں۔ محنت کش طبقے کو معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہیے۔ ہم محنت کش لوگوں کے سماجی اور جمہوری حقوق کے دفاع کے لیے ہر کام کی جگہ اور پلنٹیشنز، شہری محلے اور گاؤں میں ایکشن کمیٹیاں بنانے کے لیے لڑ رہے ہیں، آئی ایم ایف کی آسٹریٹی کو شکست دینے، حکمران طبقے کی جانب سے تمام لیے گے قرضوں سے انکار کرتے ہیں جو انہوں نے خرچ کیے ہیں اور مزدوروں کی طاقت کے لیے لڑ رہے ہیں۔

ہم محنت کشوں اور دیہی عوام کی ڈیموکریٹک اور سوشلسٹ کانگریس کے بلانے کے لیے لڑ رہے ہیں جس میں ان ایکشن کمیٹیوں کے مندوبین شامل ہوں جو کہ آزاد محنت کش طبقے کی طاقت کے آرگن کے طور پر سرمایہ دار اشرافیہ کی تمام پارٹیوں اور اداروں بشمول ان کی پارلیمنٹ اور ایگزیکٹو صدارتی آمریت کے خلاف ہوں۔ یہ جنوبی ایشیا اور بین الاقوامی سطح پر سوشلزم کی جدوجہد کے حصے کے طور پر سری لنکا میں محنت کشوں اور کسانوں کی حکومت کے لیے آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔

Loading