یہ 18 اکتوبر 2024 کو انگریزی میں شائع ہونے والے 'Biden arrives for Berlin summit, as NATO threatens Iran and Russia' اس ارٹیکل کا اردو ترجمہ ہے۔
جو بائیڈن امریکی صدر کے طور پر یورپ کے اپنے آخری دورے کے لیے کل رات برلن پہنچے جو جرمن، برطانوی اور فرانسیسی حکام کے ساتھ ایک روزہ بحرانی سربراہی اجلاس میں شرکت کریں گے۔ وہ دوپہر کو چانسلر اولاف شولز سے ملاقات کرنے سے قبل جرمن صدر فرانک والٹر اسٹین میئر سے ایک رسمی اعزاز حاصل کریں گے۔ برطانیہ کے وزیر اعظم سر کیر اسٹارمر اور فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون بعد میں ان کے ساتھ شامل ہوں گے۔
یہ سربراہی اجلاس اس وقت منعقد ہو رہا ہے جب نیٹو کو بڑھتی ہوئی تقسیم کا سامنا ہے اور مشرق وسطیٰ اور یورپ میں نیٹو کی جنگوں کے تباہ کن اضافے کے دوران دنیا عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے۔ یورپی حکمران حلقوں میں یہ خدشہ بڑھتا جا رہا ہے کہ اگلے ماہ ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کی جیت سے امریکہ کے ساتھ تعلقات خراب ہو سکتے ہیں۔ اور روس اور ایران خبردار کر رہے ہیں کہ وہ یوکرین اور اسرائیل میں نیٹو کی حمایت یافتہ حکومتوں کی طرف سے اپنی سرزمین پر حملوں کا جواب تباہ کن جوابی حملوں سے دیں گے۔
پچھلے ہفتے بائیڈن کو جرمنی میں رامسٹین ایئر بیس پر نیٹو کے سربراہی اجلاس میں شرکت کرنا تھی تاکہ یوکرین کو روس پر طویل فاصلے تک مار کرنے والے حملوں کے لیے نیٹو کے میزائل استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔ لیکن کریملن نے روس کے جوہری نظریے کو تبدیل کر دیا تاکہ یوکرین جیسے جوہری طاقتوں کو مسلح کرنے والے ممالک پر جوہری حملوں کی اجازت دی جا سکے۔ امریکہ، جرمنی، برطانیہ اور فرانس کو ممکنہ جوہری جوابی کارروائی کا سامنا کرنے کے ساتھ ہی بائیڈن نے نیٹو سربراہی اجلاس کو منسوخ کر دیا، اس کی جگہ برلن میں ایک مختصر 24 گھنٹے چار طاقتوں پر مشتمل ورکنگ میٹنگ کی گئی۔
غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی کے دوران تہران نے خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل نے ایران پر دوبارہ بمباری کی تو وہ 'فیصلہ کن' کارروائی کرے گا جسکی وہ تیاری کر رہا ہے۔ لبنان پر اسرائیل کے حملے اور حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ کے قتل کے جواب میں ایران کی جانب سے اسرائیل پر 200 میزائلوں فائر کیے جانے کے بعد اسرائیل نے دھمکی دی ہے کہ وہ ایران کی تیل اور جوہری تنصیبات پر بمباری کرے گا۔ ایران نے اس کے جواب میں سلطنت عمان میں امریکہ کے ساتھ سفارتی مذاکرات منقطع کر دیے۔
'ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے بدھ کے روز اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کو بتایا کہ 'ایران خطے کے امن و سلامتی کے تحفظ کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہ کسی بھی مہم جوئی کا فیصلہ کن جواب دینے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔' چند سو ایرانی میزائلوں کے ابتدائی انتباہی حملے نے اسرائیلی فضائی دفاع کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اسک بہت سے اہداف کو نشانہ بنایا۔ اس بار بغیر کسی وارننگ کے داغے گئے ہزاروں میزائلوں کی طرف سے مکمل حملہ اسرائیل کو تباہ کر سکتا ہے۔
گزشتہ روز نیٹو اور یورپی یونین کے سربراہی اجلاسوں نے یہ بات واضع کر دی ہے کہ سامراجی طاقتیں عوامی رائے عامہ کو پیروں تلے روندتے ہوئے جنگوں کو مزید بڑھانے کا منصوبہ بنا رہی ہیں۔ مزدور غزہ کی نسل کشی کی اور حکمران حلقوں کی روس سے لڑنے کے لیے یوکرین میں نیٹو فوجیوں کو تعینات کرنے کے مطالبہ کی زبردست مخالفت کرتے ہیں۔ لیکن نیٹو کے اہلکار صرف ایسی پالیسیوں پر بات کر رہے ہیں جو اقتصادی تباہی یا ایٹمی جنگ کو بھڑکا سکتی ہیں۔
نیٹو کے وزرائے دفاع کا دو روزہ اجلاس پچھلے روز برسلز میں شرع ہوا جو یوکرین اور بحرالکاہل میں چین کے خلاف نیٹو کے جنگی منصوبوں پر منقد کیا گیا ہے۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل مارک روٹے نے کہا کہ یورپی نیٹو طاقتیں اس سال یوکرین پر 50 بلین ڈالر خرچ کریں گی اور ساتھ ہی ایشیا میں فوجی منصوبہ بندی کو تیز کرنے پر زور دیا ہے۔
آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جاپان اور جنوبی کوریا برسلز میں نیٹو کے پہلے سربراہی اجلاس میں شریک تھے اور مارک روٹے نے ان کی موجودگی کو سراہا: 'چین اور دیگر آمرانہ حکومتیں روس کی جارحیت کی جنگ کو ہوا دیتی رہیں اور یورو-اٹلانٹک سیکورٹی کو چیلنج کرتی رہیں ہیں۔ یوکرین میں جنگ نے ظاہر کیا ہے کہ یورپ میں عدم استحکام کے پوری دنیا پر دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور وہ ممالک جو ہزاروں میل دور ہیں جیسا کہ ایران، چین اور یہاں تک کہ شمالی کوریا بھی ہمارے اپنے گھر کے پچھواڑے میں سلامتی کو بگاڑنے کے مرتکب بن سکتے ہیں۔ '
روٹے کا یہ تبصرہ جزیرہ نما کوریا میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران آیا ہے۔ جنوبی اور شمالی کوریا کی افواج ہائی الرٹ پر ہیں جب شمالی کوریا کی حکومت نے جنوبی کوریا کی ڈرون پروازوں کا جواب سرحد کو بند کر کے اور کسی بھی حملے کے جواب میں جوہری جوابی کارروائی کی دھمکی دی تھی۔
گزشتہ روز یورپی یونین کے سربراہان مملکت کی یورپی کونسل کا اجلاس بھی ہوا۔ انہوں نے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کو دوبارہ اپنا نام نہاد 'فتح کا منصوبہ' پیش کرتے ہوئے سنا جو انہوں نے ایک دن پہلے یوکرائنی پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیا تھا۔ زیلنسکی کے منصوبے میں نیٹو ممالک کو یوکرین کے کھربوں ڈالر کے معدنی وسائل سستے داموں فروخت کرنے کے ساتھ ساتھ یوکرین کو نیٹو میں شامل ہونے اور روس پر طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل حملے شروع کرنے کا مطالبہ بھی شامل ہے۔
یورپی یونین کی کونسل نے یوکرین کے لیے نیٹو کے 50 بلین ڈالر کی مزید امداد ادا کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ یہ کہتے ہوئے کہ وہ 'مشرق وسطیٰ میں فوجی اضافے سے بہت پریشان ہیں '۔انہوں نے 'اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کا اعادہ بھی کیا،' یہ بہانہ واشنگٹن اور اسرائیلی حکومت نے غزہ کی نسل کشی اور لبنان کو نشانہ بنانے والی جارحیت کو جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔
عالمی جنگ میں اضافیغزہ کی نسل کشی اور زیلنسکی کی نیٹو کان کنی کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے یوکرین کو لوٹنے کی پیشکش نیٹو کو بے نقاب کر رہی ہے۔ نیٹو یوکرائنی جمہوریت یا اسلام پسند دہشت گردی کے خلاف نہیں لڑ رہا ہے۔ جیسا کہ سرمایہ داری کو جن تضادات کا سامنا تھا جنہیں 20 ویں صدی کے عظیم مارکسسٹوں نے عالمی جنگ کے اسباب کے طور پر شناخت کیا یعنی کہ قومی ریاست کے نظام کے ساتھ عالمی معیشت کی عدم مطابقت اور نجی منافع پر قائم سماجی پیداوار، جیسا کہ پچھلی صدی میں لوٹ مار اور فنا کی جنگوں کے ساتھ نیٹو طاقتیں جواب دے رہی ہیں۔
ناقابل حل معاشی تنازعات میں جنگوں کی جڑیں ان رپورٹس میں ابھرتی ہیں کہ اگلے ہفتے روس کے جنوب مغربی شہر کازان میں برازیل-روس-بھارت-چین-جنوبی افریقہ برکس (BRICS) سربراہی اجلاس ممکنہ طور پر سونے پر مبنی امریکی ڈالر کے لیے متبادل بین الاقوامی ادائیگی کا نظام قائم کر سکتا ہے۔ اگر روس اور چین نے واشنگٹن کے ساتھ جنگ میں ایران کی اقتصادی مدد کرتے ہوئے امریکی پابندیوں سے بچنے کی کوشش کی تو یہ اہم ہوگا۔ عالمی تجارت میں ڈالر کے استعمال کو کم کرنے سے یہ اقدام ڈالر کی قدر میں خاطر خواہ کمی کو ہوا دے سکتا ہے۔
نیٹو کے اتحادیوں کے لیے ان جنگوں کے تباہ کن نتائج نیٹو کو مزید لاپرواہی سے جنگ کی جانب بڑھنے والے اقدامات کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ نہ صرف اسرائیلی افواج غزہ کے خلاف نسل کشی کے تشدد کے باوجود حماس کو کچلنے میں ناکام رہی ہیں بلکہ حزب اللہ کے خلاف ان کی پیش قدمی لبنان میں بمشکل ایک کلومیٹر کے فاصلے پر رک گئی ہے۔ مزید اسرائیلی بڑھوتری ایک تباہ کن مشرق وسطیٰ کی جنگ کو بھڑکا سکتی ہے اور ایران اور خلیج فارس کے دیگر ممالک کے تیل کی تجارت کو بند کر کے تیل کی منڈیوں اور عالمی معیشت کو ڈبو سکتی ہے۔
جہاں تک یوکرین کا تعلق ہے، جہاں بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کے خلاف کیف میں بڑے پیمانے پر مظاہرے پھوٹ پڑے ہیں اور اس کی فوج کے دس لاکھ سے زیادہ ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں اور وہ پورے محاذ پر مکمل پسپائی میں ہے۔ یہ بات تیزی سے واضح ہو رہی ہے کہ اس حالت کو بدلنے کے لیے نیٹو طاقتوں کو جنگوں کے لیے اپنی بڑی تعداد میں فوجیں بھیجنا ہوں گی۔
نیٹو کے منصوبوں کو غیر مستحکم کرنے والا ایک عنصر امریکی صدارتی انتخابات کے درمیان واشنگٹن اور اس کے یورپی اتحادیوں کے درمیان بڑھتا ہوا تناؤ ہے۔ ٹرمپ نے بطور صدر اپنی پہلی مدت کے دوران ریاستہائے متحدہ کو یورپی برآمدات پر اضافی محصول کا زور دار تھپڑ مارا تھا اور اس بات کے خدشات بڑھ رہے ہیں کہ ٹرمپ دوبارہ منتخب ہونے پر اپنے محصولات میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ برلن سربراہی اجلاس پر پولیٹیکو جریدے کے مضمون جس کا عنوان تھا 'جرمنی کے ٹرمپ پر غصے کو کم کرنے کے لئے بائیڈن کے مشن' نے یورپی حکمران حلقوں میں کچھ خدشات کا اظہار کیا۔
“اپنی دونوں قوموں کے درمیان اتحاد کی اہمیت کے بارے میں تمام ناگزیر باتوں کے لیے بائیڈن اور جرمن چانسلر اولاف شولز یوکرین میں ایک منجمد تنازعہ کو پیچھے چھوڑ کر جا رہے ہیں،' پولیٹیکو نے لکھا، 'ڈونلڈ ٹرمپ کی امریکی صدارتی انتخابات میں فتح جس نے کییف کے لیے امریکی حمایت جاری رکھنے پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے وہ راتوں رات امریکی-یورپی تعلقات کو بحران میں ڈال دے گا۔
یورپ کے اندر ہتھیاروں کی دوڑ کے بارے میں انتباہ کرتے ہوئے پولیٹیکو نے مزید لکھا کہ 'ٹرمپ کی جیت جرمنی جیسے ممالک کو یوکرین کی مدد جاری رکھنے کے بجائے اپنی سلامتی کو بڑھانے پر زیادہ توجہ دینے پر مجبور کرے گی۔' میڈیا رپورٹس کے مطابق برلن اجلاس کا فارمیٹ خاص طور پر پولینڈ کو خارج کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا تاکہ ان اندرونی یوروپی تناؤ کو اجاگر کیا جا سکے۔
فیصلہ کن سوال یہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر محنت کشوں کو تیزی سے بڑھتی ہوئی فوجی کشیدگیوں کے خطرے سے انہیں انتبا، آگاہ اور متحرک کرنا ہے۔ سرمایہ دارانہ حکومتوں کے مزید خون بہانے ان جنگوں پر مزید اربوں خرچ کرنے، اپنی جنگی مشینیں بنانے، اور مزدوروں کے معیار زندگی اور سماجی حقوق پر حملہ کرنے کے منصوبوں کی مخالفت کی جانی چاہیے تاکہ اس لاپرواہی جنگی اقدامات کو مالی امداد فراہم کی جا سکے۔ اس کے لیے سامراجی جنگ اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف محنت کش طبقے میں ایک بین الاقوامی سوشلسٹ جنگ مخالف تحریک کی تعمیر کی ضرورت ہے۔