اُردُو
Perspective

یورپی انتخابات میں انتہائی دائیں بازو کے ووٹ کیوں بڑھ رہے ہیں؟

یہ تناظر 11 جون 2024 کو انگریزی میں شائی ہوا یہ 'Why is the far-right vote surging in the European elections?' اسکا اردو ترجمہ ہے۔

اتوار کے یورپی انتخابات میں انتہائی دائیں بازو اور نیو فاشسٹ پارٹیوں کے ووٹوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یورپی کنزرویٹو اور ریفارمسٹ (ای سی آر) اتحاد جسکی قیادت برادرز آف اٹلی (ایف ڈی آئی) کرتی ہے فرانس کی نیشنل ریلی کے آئیڈینٹیٹی اینڈ ڈیموکریسی کے (آئی ڈی) اتحاد اور الٹرنیٹو فار جرمنی نے مجموعی طور پر 146 نشستیں حاصل کیں۔ یہ یورپی یونین کی پارلیمنٹ کی 720 نشستوں کا پانچواں حصہ بنتا ہے اور جو 2019 کے یورپی انتخابات کے مقابلے میں انتہائی دائیں بازو کے 28 سیٹوں کا اضافہ ہوا ہے۔

فرانسیسی انتہائی دائیں بازو کی رہنما میرین لی پین پارٹی الیکشن نائٹ ہیڈ کوارٹر میں فرانسیسی صدر جارڈن بارڈیلا کی انتہائی دائیں بازو کی قومی ریلی کے دوران خطاب کر رہی ہیں۔ (اے پی فوٹو/لیوس جولی)

اس انتخابات کا نتیجہ موجودہ سوشل ڈیموکریٹک اور لبرل پارٹیوں کے ووٹروں کی طرف سے ایک ذلت آمیز اظہار اور انکار ہے جو یورپی یونین (ای یو) اور ای یو پارلیمنٹ پر غالب ہیں۔

ان جماعتوں نے دہائیوں سے جاری یورپی یونین کی اسڑیٹی کے حکم کے محافظوں کے طور پر غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی کے حامیوں اور یوکرین میں روس کے ساتھ امریکہ-نیٹو کی جنگ میں بڑے پیمانے پر اضافے کے فروغ کے طور پر مہم چلائی ہے۔ جرمن چانسلر اولاف شولز نے حال ہی میں نیٹو کے میزائلوں سے روس پر بمباری کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا اور فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے روس سے لڑنے کے لیے یوکرین میں فوج بھیجنے کا اعلان کیا۔

شولز کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف جرمنی (ایس ڈی پی) کو 13.9 فیصد ووٹ ملے۔ یہ گزشتہ 137 سالوں میں اس کا بدترین انتخابی رزلٹ ہے جب بسمارک نے سوشلسٹ مخالف قوانین کے تحت نوجوان ایس ڈی پی کی سرگرمیوں پر بڑی حد تک پابندی لگا دی تھی۔ ان کے گرین اتحادی شراکت داروں نے 8.6 فیصد پوائنٹس کھوئے جو گر کر 11.9 فیصد رہ گئے۔ فری ڈیموکریٹک پارٹی 5.2 فیصد کے ساتھ جبکہ جرمن حکومتی جماعتوں نے صرف 31 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ انتہائی دائیں بازو کی اے ایف ڈی نے 15.9 فیصد ووٹ اور 15 نشستیں حاصل کیں جو صرف دائیں بازو کے کرسچن ڈیموکریٹس (30 فیصد) کے بعد دوسرے نمبر پر رہی۔

فرانس میں 31.4 فیصد ووٹوں کے ساتھ میرین لی پین کی نیو فاشسٹ آر این نے میکرون کی پارٹی کو شکست دی جو صرف 14.6 فیصد ووٹ حاصل کر سکی اور اسکے ساتھ ہی سوشلسٹ پارٹی (پی ایس 13.9 فیصد) اور جین لوک میلینچوں کی فرانس اَنبوڈ کی پارٹی (ایل ایف آئی 9.9 فیصد) ووٹ حاصل کر سکی۔

میکرون نے اتوار کی رات اچانک پارلیمنٹ کو تحلیل کر کے اور 30 ​​جون تا 7 جولائی کے لیے جلد قانون سازی کے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کر کے رد عمل کا اظہار کیا۔ جبکہ آر این بڑی کامیابی حاصل کرنے اور ممکنہ طور پر فرانس کی پہلی نیو فاشسٹ حکومت بنانے کے لیے آگے بڑھ رہی ہے۔

وہ کون سے سیاسی محرکات تھے جنہوں نے انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کی تیز رفتار ترقی کو اجاگر کیا ہے؟ جبکہ یہ بڑے پیمانے پر متوسط ​​طبقے کی فاشسٹ تحریکوں کا ظہور نہیں ہے جیسے نازی کی 'براؤن شرٹس،' اطالوی فاشسٹ کی 'بلیک شرٹس،' یا فرانسیسی نازی تعاون پسند ملیس یونٹس۔ یورپ کی انتہائی دائیں بازو کی لہر محنت کش طبقے یا وسیع تر آبادی میں بڑے پیمانے پر فاشسٹ جذبات کی پیداوار نہیں ہے۔

حقیقت میں فوجی جارحیت اور نسل کشی اور یورپی فاشزم کی حمایت یافتہ پالیسیوں کو بڑے پیمانے پر مخالفت کا سامنا ہے۔ فرانس میں 68 فیصد جرمنی میں 80 فیصد اور پولینڈ میں 90 فیصد نے روس کے خلاف لڑنے کے لیے یوکرین میں فوج بھیجنے کی میکرون کے مطالبے کی مخالفت کی ہے۔ اور غزہ کی نسل کشی کی مخالفت اتنی مقبول ہوئی ہے جس نے پورے یورپ میں مظاہروں کو جنم دیا ہے اور اتنی گہری ہے کہ یہاں تک کہ یورپی یونین کی وہ حکومتیں جو اسرائیل کو مسلح کرتی ہیں اس جاری اجتماعی قتل عام پر چند منافقانہ اور غیر مخلصانہ تنقیدیں کرنے پر بھی مجبور ہیں۔

انتہائی دائیں بازو کا عروج قوم پرست، بیوروکریٹک تنظیموں کے ذریعے محنت کشوں کے منظم طریقے سے حقِ رائے دہی سے محرومی کا نتیجہ ہے جسے میڈیا اور حکمران طبقہ 'بائیں بازو' کے طور پر فروغ دیتا ہے۔ انتہائی دائیں بازو کے برعکس جو موجودہ سیاسی نظام کے خلاف عوامی عدم اطمینان کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے جسے قوم کے خلاف سازش قرار دیتے ہیں اور روس کے ساتھ بے لگام جنگ کے بارے میں تحفظات کا اظہار کرتے ہیں - متوسط ​​طبقے کی یہ خوشحال پرت جماعتیں مطمئن اور خود اطمینانی کا اظہار کرتی ہیں۔

یہاں تک کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس طاقتوں کے درمیان جنگ، نسل کشی اور پولیس سٹیٹ کے عروج اور حکمرانی کی فاشسٹ شکلوں کے باوجود یہ تنظیمیں اصرار کرتی ہیں کہ مقبول اپوزیشن کو سرمایہ دارانہ حکومت کی جماعتوں اور اتحادی یونین بیوروکریسیوں کے ساتھ کمزور اتحاد سے منسلک ہونا چاہیے۔ وہ انتہائی دائیں بازو پر جتنی بھی تنقید کرتے ہیں وہ ٹراٹسکی ازم اور سوشلزم کے لیے یورپی محنت کش طبقے میں انقلابی تحریک کی تعمیر سے کہیں زیادہ مخالف ہیں۔

کل ورلڈ سوشلسٹ ویب سائٹ (ڈبلیو ایس ڈبلیو ایس) کے انٹرنیشنل ایڈیٹوریل بورڈ کے چیئرمین ڈیوڈ نارتھ نے یونان کی سیریزا (' ریڈیکل بائیں بازو کا اتحاد') حکومت کے سابق وزیر خزانہ یانس واروفاکیس کی 'ذاتی شکست۔' کی شکایات کا جواب دیا۔

Loading Tweet ...
Tweet not loading? See it directly on Twitter

'کیا یہ مناسب نہیں ہوگا کہ [واروفاکیس] کے لیے فاشسٹ دائیں بازو کی بحالی کے لیے اپنی سیاسی ذمہ داری اور جعلی بائیں بازو کے رجحانات کا جائزہ لیا جائے؟ سیریزا، پوڈیموس، کاربین وغیرہ کی دھوکہ دہی۔ انتہائی دائیں بازو کے لیے ایک موقع فراہم کیا ہے۔'

ان کی غداری کا مظہر سیریزا ہے جو کہ 2015 میں برسراقتدار آئی اور اُس نے ای یو کی اسڑیٹی کی پالیسیوں کو روکنے کا وعدہ کیا اور پھر اپنے وعدوں سے کھلی دھوکہ دیتی کی ہے۔ انتہائی دائیں بازو کی آزاد یونانی (اے این ای ایل) پارٹی کے ساتھ حکومتی اتحاد قائم کرتے ہوئے، اس نے معیار زندگی کو کم کرنے کے لیے مزید ای یو کے اسڑیٹی کے پیکج کو اپنایا اور مہاجرین کے لیے یو ای کو جیل کیمپ میں تبدیل کر دیا۔ 2019 میں بے عزتی کے ساتھ اقتدار چھوڑنے کے بعد سیرزا کی قیادت اب گولڈمین سیکس کے سابق بینکر سٹیفانوس کیسیلاکس نے کی ہے۔

اس طرح کی غداری اور لاپرواہی ہر ملک میں مختلف آڑ میں دہرائی جاتی ہے، جو انتہائی دائیں بازو کے لیے راستہ کھول رہی ہے۔ ایک طویل عرصے تک جرمن لیفٹ پارٹی نے ایس پی ڈی کی قیادت والی حکومت کے مزدور دشمن اور سامراجی حمایت کے کردار کو چھپانے کے لیے ایک ہتھیار طور پر کام کیا۔ اس نے صرف زبانی تنقید کا اظہار کیا لیکن جنگ اور محنت کش طبقے پر حملوں کی حمایت کی۔ یوں اسے 2.7 فیصد کے ساتھ یورپی انتخابات میں بدترین جھٹک ملا ہے۔ یہاں تک کہ صوبہ تھرنگیا میں جہاں اس کے پاس اب بھی بوڈو رامیلو وزیر اعظم ہیں اس نے صرف 5.7 فیصد حاصل کیا۔

بائیں بازو کی پارٹی کی طرف سے ساحرہ ویگنکنچٹ الائنس (بی ایس ڈبلیو) ابھر کر سامنے آیا ہے جو یوکرین میں جنگ کی محدود تنقیدوں کو مہاجرین سے نفرت اور تعصب کو سماجی لفاضیت کے ساتھ جوڑتا ہے اور ساتھ ہی سوشلزم کو واضح طور پر مسترد کرتا ہے۔ اسے ملک بھر میں 6.2 فیصد اور سٹالنسٹ مشرقی جرمن حکومت کے سابقہ ​​علاقے میں 13.9 فیصد ووٹ ملے۔

فرانس میں جین لوک میلینچوں ایل ایف آئی نے 2022 کے صدارتی انتخابات میں اپنا نصف فیصد ووٹ کھو دیا جب اس کے پاس 20 فیصد اور فرانس کے تقریباً تمام بڑے شہروں کے محنت کش طبقے کے اضلاع میں اکثریت تھی۔ اس نے ہڑتالوں اور جدوجہد میں اپنے ووٹروں کو متحرک کرنے کی کسی بھی اپیل کو مستقل طور پر مسترد کر دیا، خاص کر کے پچھلے سال میکرون کی پنشن میں کٹوتیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر ہڑتالوں کے دوران جب دو تہائی فرانسیسی عوام نے میکرون کے خلاف عام ہڑتال کے ساتھ معیشت کو روکنے کی حمایت کی تب بھی اس نے مسترد کر دیا۔ اس نے اصرار کیا کہ غزہ کی نسل کشی میں ہونے والے مظاہروں کی بنیاد پارلیمنٹ میں ایل ایف آئی کے ارکان کی چالوں کی حمایت کے تناظر پر ہونی چاہیے۔

ایل ایف آئی مکمل طور پر فرانس کی پولیس سٹیٹ کے پہلے سے زیادہ آمرانہ فریم ورک کے اندر کام کر رہی ہے۔ میلینچون نے 2022 کے انتخابات کے دوران میکرون یا نیو فاشسٹ صدر کے تحت وزیر اعظم کے طور پر خدمات انجام دینے کا وعدہ کیا۔ ان انتخابات میں ایل ایف آئی نے سٹالنسٹ فرانسیسی کمیونسٹ پارٹی اور یوکرین جنگ کے حامی پی ایس امیدوار رافیل گلکسمین کے ساتھ اتحاد کیا یہاں تک کہ میکرون حکومت نے غزہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کے بیانات پر اپنے اراکین کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی دھمکی دی تب اس نے صرف زبانی حد تک میکران پر تنقید کی۔

یورپی سیاست میں انتہائی دائیں بازو کے اس مسلسل اضافے سے اہم نتائج اخذ کیے جانے چاہئیں۔ محنت کش طبقے میں مارکسسٹ بین الاقوامی انقلابی قیادت کی عدم موجودگی میں نیو فاشسٹ بلا روک ٹوک بڑھ رہیں ہیں- حتیٰ کہ بڑے پیمانے پر ہڑتالوں اور احتجاج کے دوران میں بھی۔

انتہائی دائیں بازو کو سرمایہ دارانہ میڈیا کے طاقتور حصوں اور حکمران طبقے کی حمایت حاصل ہے کیونکہ وہ جنگ، نسل کشی اور سرمایہ دارانہ بحران کے دور میں سامراج کی ضروریات کا سب سے تیز اور واضح اظہار کرتے ہیں۔

ان کی قوم پرستی اور پولیس ریاستی حکمرانی کا فروغ مزدوروں کو قومی خطوط پر تقسیم کرتا ہے، عسکریت پسندی کو قانونی حیثیت دیتا ہے اور سوشلزم کے خلاف پرتشدد دشمنی کو فروغ دیتا ہے۔ جیسا کہ روس کی جنگ میں فرانسیسی آر این کی پوزیشن کی تبدیلی، خاص طور پر اس کا یوکرین کو فوجی امداد کے خلاف ووٹ نہ دینے کا فیصلہ صاف طور پر واضح کرتا ہے کہ نیو فاشسٹ سامراجی جنگ کی مخالفت نہیں کرتے، لیکن وہ خود کو نیٹو کی طرف سے تیار کیے جانے والے فوجی اضافے کے مطابق ڈھالنے کی تیاری کر رہے ہیں۔

انتہائی دائیں بازو کے عروج کو روکنے کے لیے پورے یورپی ممالک میں مارکسسٹ-ٹراٹسکیسٹ انقلابی پارٹیوں کی تعمیر کے لیے جدوجہد شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ چوتھی انٹرنیشنل کی انٹرنیشنل کمیٹی سامراجی جنگ اور نسل کشی کے خلاف محنت کش طبقے کی طاقت کو متحد کرنے، سوشلزم کے لیے جدوجہد کو آگے بڑھانے اور مزدوروں کے اقتدار کے لیے کوشاں ہے۔

آئی سی ایف آئی کے جرمن سیکشن نے اس تناظر کے لیے لڑنے کے لیے اپنی لیسٹ کے ساتھ یورپی انتخابات میں حصہ لیا۔ اپنی انتخابی اپیل میں سوشلسٹ ایکولیٹی پارٹی نے لکھا:

حکومتوں سے اپیل کرکے تیسری عالمی جنگ کو روکنا اور جمہوری حقوق اور سماجی کامیابیوں کا دفاع کرنا ممکن نہیں۔ وسیع اکثریت کے مفادات کو منافع کے لالچ اور حکمران طبقے کی سامراجی خواہشات کے ساتھ اب مزید ہم آہنگ نہیں کیا جا سکتا۔ جنگ اور عدم مساوات کو ختم کرنے کے لیے عوام کو سیاسی عمل میں آزادانہ مداخلت کرنا ہوگی بینکوں اور کارپوریشنوں کی طاقت کو توڑنا ہوگا اور انہیں جمہوری کنٹرول میں رکھنا ہوگا۔

محنت کش طبقے اور نوجوانوں کو آنے والی ناگزیر طبقاتی جدوجہد کے لیے تیار کرنے میں ایس جی پی کی مہم بہت اہمیت کی حامل تھی۔ اس نے سوشل میڈیا پر ریلیوں، کتابچے، ڈبلیو ایس ڈبلیو ایس کے مضامین اور ویڈیوز کے ذریعے اپنے سوشلسٹ پروگرام سے لاکھوں لوگوں کو روشناس کرایا ہے۔ اب پورے یورپ اور بین الاقوامی سطح پر پارٹی اور آئی سی آئی ایف کے سیکشنز کو فعال طور پر بنانا بہت ضروری ہے جنگ، استحصال اور فاشزم کے خلاف جدوجہد کی کامیابی کے ساتھ قیادت کرنے کا یہی واحد راستہ ہے۔

Loading