یہ 7 مئی 2024 کو انگریزی میں شائع ہونے والے 'NATO escalation in Ukraine threatens nuclear war with Russia' اس تناظر کا اردو ترجمہ ہے۔
ایسے بڑھتے ہوئے اشارے مل رہے ہیں کہ روس کے خلاف نیٹو کی جنگ شدت کے ساتھ ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے جس سے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ نیٹو کے اعلیٰ حکام کھلے عام روس کے خلاف میزائل حملوں اور زمینی جنگ کا سہارا لینے کی بات کر رہے ہیں جب کہ روسی حکام خبردار کر رہے ہیں کہ وہ نیٹو ممالک پر جوابی حملے کر سکتے ہیں۔
ایشیا ٹائمز میں سابق امریکی انڈر سیکرٹری برائے دفاع اسٹیفن برائن کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے فرانسیسی غیر ملکی فوجی ڈویژن کے 100 توپ خانے اور نگرانی کے ماہرین کو یوکرین کے سلاویانسک میں اگلے مورچوں پر تعینات کیا گیا تھا۔ برائن نے کہا کہ مزید 1,500 فرانسیسی غیر ملکی ڈویژن جلد ہی یوکرین میں تعینات کر سکتے ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ اس کا ایک نتیجہ 'ممکنہ طور پر ایک پین-یورپی جنگ کو متحرک کرنا ہے۔'
جبکہ فرانسیسی وزارت خارجہ نے برائن کی رپورٹ کی تردید کی ہے جبکہ یہ صدر ایمانوئل میکرون کے روس کے ساتھ زمینی جنگ کے پچھلے مطالبات کے مطابق ہے۔ میکرون اور نیٹو کے دیگر اعلیٰ حکام اب ایک جارحانہ پریس مہم میں ان تبصروں کا اعادہ کر رہے ہیں۔ پچھلے ہفتے دی اکانومسٹ میں میکرون نے ایک بار پھر نیٹو سے یوکرین میں زمینی فوج بھیجنے کے لیے تیار رہنے کا مطالبہ کیا ہے:
'اگر روسی اگلی صفوں کو پار کرتے ہیں اور اگر یوکرین کی درخواست کرے گا جو کہ اب تک ایسا نہیں ہے تو ہمیں قانونی طور پر یہ سوال خود سے پوچھنا ہو گا۔'
اس ہفتے کے آخر میں اطالوی روزنامہ لا ریپبلیکا نے نیٹو کے مزید جنگی منصوبوں کی اطلاع دی۔ اس نے نیٹو کے خفیہ معاہدوں کا حوالہ دیا جو مبینہ طور پر دو 'سرخ لکیروں' کی وضاحت کرتے ہیں جنگ میں بیلاروس کے داخلے اور پولینڈ، ہنگری یا بالٹک ریاستوں کو نشانہ بنانے والی روسی 'اشتعال' کے اقدامات۔ اگر ان میں سے کسی ایک 'سرخ لکیر' کو عبور کیا جاتا ہے تو نیٹو مشرقی یورپ میں بالٹک ریاستوں سے لے کر رومانیہ تک 100,000 فوجیوں کو متحرک کرے گا۔
اس کے علاوہ گزشتہ جمعرات کو برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون کیف گئے جہاں انہوں نے کہا کہ یوکرین کو روس پر بمباری کے لیے برطانوی طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل استعمال کرنے کا 'مکمل حق' حاصل ہے۔
اس ہفتے کے آخر میں میکرون نے فرانسیسی مالیاتی اخبار لا ٹریبیون کو بتایا کہ نیٹو کو روس کی فوجی کمان میں اپنے اقدامات کے بارے میں مکمل غیر یقینی صورتحال پیدا کرنی چاہیے:
'صدر پیوٹن نے مسلسل جوہری خطرے کی نشاندہی کی ہے۔ اس خطرے کا سامنا کرتے ہوئے اس طرح اپنے اقدامات کو ترجیحی حدیں دینا ایک ایسی کمزوری ہے! ہمیں اس کے برعکس اس کے کسی بھی خیال سے انکار کرنا چاہیے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں اور اس طرح ہم اسے کارروائی کرنے سے روک سکتے ہیں۔
میکرون کے بیانات حکمران حلقوں میں موجود سراسر لاپرواہی کے موڈ کی عکاسی کرتے ہیں۔ سرد جنگ کے دوران امریکی اور سوویت حکام نے وائٹ ہاؤس اور کریملن کے درمیان ایک ہنگامی ہاٹ لائن قائم کی تھی اس خوف سے کہ اگر ایک فریق دوسرے کے ارادوں کو غلط سمجھتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ مخالف نے جوہری حملہ کر دیا ہے تو غلطی سے ایٹمی جنگ چھڑ سکتی ہے۔ اس طرح کا خطرہ 26 ستمبر 1983 کو تقریباً اس وقت سامنے آیا جب سوویت ابتدائی وارننگ سسٹم نے غلط اشارہ دیا کہ امریکی افواج نے سوویت یونین پر جوہری میزائل داغے ہیں۔
تاہم اب میکرون کا کہنا ہے کہ نیٹو کا مقصد مذاکرات کے ذریعے امن کی تلاش نہیں ہے بلکہ روسی فوج کو یہ ماننے پر مجبور کرنا ہے کہ نیٹو ممکنہ حد تک جارحانہ پالیسی اختیار کر سکتا ہے۔ اس میں ممکنہ طور پر نہ صرف روس پر بڑے پیمانے پر زمینی حملہ کرنا شامل ہے اس کے علاوہ فرانس، برطانیہ اور امریکہ سبھی جنگ میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے آغاز کو مسترد کرنے سے انکار کرتے ہیں- روسی افواج پر پیشگی جوہری حملہ یوکرین میں یا روسی شہروں پر بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا ہے۔
یوکرین میں فرانسیسی فوجی پہلے سے تعینات ہیں یا نہیں کریملن واضح طور پر ان اطلاعات کو سنجیدگی سے لے رہا ہے۔ میکرون نے کہا کہ وہ 'اسٹریٹجک ابہام' روس کے ساتھ نیٹو کے تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں۔ بڑھتے ہوئے یقین کے ساتھ کہ نیٹو تباہ کن طور پر تنازعہ کو بڑھا سکتا ہے روسی حکام جواب میں انتہائی سخت اقدامات کی تیاری کا مطالبہ کر رہے ہیں جس سے جنگ میں تباہ کن اضافے کے لیے حالات پیدا ہو رہے ہیں۔
کل کریملن نے اعلان کیا کہ وہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی نقلی فوجی مشقیں کرے گا۔ کریملن کے ترجمان دیمتری پیسکوف نے جوہری مشقوں کو فرانسیسی صدر اور برطانوی سیکرٹری خارجہ کی جانب سے شروع کی گئی کشیدگی میں اضافے کے ایک بے مثال مرحلے کا ردعمل قرار دیا جس میں 'یوکرین میں مسلح دستے بھیجنے کا ارادہ بھی شامل ہے یعنی نیٹو کو درحقیقت اس جنگ میں داخل کرنا جس سے نیٹو فوجی روسی فوجیوں کے آمنے سامنے ہو جاہیں گے۔
روسی وزارت خارجہ کی جانب سے کیمرون اور میکرون کے بیانات پر احتجاج کے لیے گزشتہ روز برطانوی اور فرانسیسی سفیروں کو طلب کرنے کے بعد غیر معمولی انتباہات سامنے آئے۔
گارڈین نے لکھا کہ اس نے روس میں برطانیہ کے سفیر نائیجل کیسی کو خبردار کیا کہ کیمرون کے بیانات نے برطانیہ کو یوکرین اور روس کے درمیان 'تصادم کا اصل فریق' بنا دیا ہے۔ روسی وزارت خارجہ نے کہا کہ ' نائیجل کیسی کو بتایا گیا تھا کہ برطانوی ہتھیاروں کے ساتھ روسی سرزمین پر یوکرین کے حملوں کے جواب میں یوکرین کی سرزمین اور بیرون ملک کسی بھی برطانوی فوجی تنصیبات اور آلات کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے'۔
کل اپنے ٹیلی گرام چینل پر روس کے سابق صدر دمتری میدویدیف نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ اگر نیٹو اپنے راستے پر چلتا رہا تو روس واشنگٹن، پیرس اور لندن پر بمباری کر سکتا ہے جو کہ ایک 'عالمی تباہی' ہو گی میدویدیف نے لکھا:
مغرب میں حکمران طبقے کی مکمل تنزلی کی یہ ایک قسم ہے۔ یہ طبقہ واقعی ابتدائی چیزوں کو منطقی طور پر جوڑنا نہیں چاہتا۔ اپنے فوجیوں کو یوکرین کی سرزمین پر بھیجنے سے ان کے ممالک کو جنگ میں براہ راست داخل ہونا پڑے گا جس کا ہمیں جواب دینا پڑے گا اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ فوجی جواب صرف یوکرین کے علاقے تک محدود نہیں رہے گی بلکہ اسکی سرحدوں سے پار ہو گا۔
اس صورت میں کیپٹل ہل میں یا ایلیسی محل میں یا پھر 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ میں ان میں سے کوئی بھی چھپ نہیں سکے گا۔ ایک عالمی تباہی آئے گی۔
4 مئی کو انٹرنیشنل کمیٹی آف دی فورتھ انٹرنیشنل کی (آئی سی ایف آئی) مئی ڈے کی آن لائن ریلی کا تعارف کرواتے ہوئے ڈیوڈ نارتھ نے اس خطرے سے خبردار کیا کہ یوکرین میں روس کے خلاف نیٹو کی جنگ جوہری عالمی جنگ میں بڑھ سکتی ہے۔ امریکہ-برطانیہ نے نیٹو کی یوکرائنی کٹھ پتلی حکومت کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں سے مسلح کرنے کے وعدوں کا حوالہ دیتے ہوئے نارتھ نے کہا:
لیکن کیا ہوگا اگر پیوٹن 1962 میں کیوبا کے میزائل بحران کے دوران صدر جان ایف کینیڈی کی قائم کردہ نظیر کو استعمال کرتے ہوئے اور کینیڈی کے انتباہ کی ترجمانی کرتے ہوئے اعلان کریں کہ نیٹو کی طرف سے فراہم کردہ میزائلوں سے یوکرین کی طرف سے روسی سرزمین پر حملے کو 'حملہ تصور کیا جائے گا'۔ نیٹو روس پر نیٹو ممالک پر 'مکمل جوابی ردعمل کی ضرورت ہے'؟
بائیڈن اور ان کے نیٹو ساتھیوں کے لیے اب وقت آگیا ہے کہ وہ لوگوں کو بتائیں کہ 'یوکرین میں فتح' کے حصول کا مطلب جوہری جنگ کا خطرہ ہے اور ضروری تفصیل سے بیان کریں کہ اگر روس کے ساتھ تصادم جوہری ہو جاتا ہے تو ان کے ممالک اور دنیا کا کیا ہو گا۔
اس انتباہ میں مبالغہ آرائی کا کوئی نشان نہیں تھا، جس کی بمشکل تین دن میں تصدیق ہوئی ہے۔
دنیا بھر کے محنت کشوں اور نوجوانوں سے ممکنہ طور پر سخت ترین اپیل کی جانی چاہیے: اگر محنت کش طبقہ سرمایہ دارانہ حکومتوں کے خلاف اس بڑھوتری کو روکنے کے لیے مداخلت نہیں کرتا ہے تو ایک یا دوسرا تصادم بالآخر ایٹمی جنگ میں بڑھ جائے گا۔
سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ محنت کشوں اور نوجوانوں کی بڑی تعداد تباہ کن عالمی جنگ کے خطرے کی فوری ضرورت سے پوری طرح آگاہ نہیں ہے۔ انہیں میٹنگوں، احتجاجوں اور ہڑتالوں کی ایک بین الاقوامی تحریک کے ذریعے آگاہ اور متحرک کیا جانا چاہیے، جس کا مقصد بین الاقوامی محنت کش طبقے میں ایک وسیع سوشلسٹ بنیاد پر جنگ مخالف تحریک کی تعمیر کرنا ہے۔