اُردُو
Perspective

یو اے ڈبلیو بیوروکریسی طبقاتی جدوجہد کو دبانے کے لیے اپنی کوششیں تیز کر رہی ہے۔

یہ 4 اکتوبر کو انگریزی میں شائع ہونے والے 'The UAW bureaucracy is intensifying its efforts to suppress the class struggle' اُس ارٹیکل کا اردو ترجمہ ہے۔

گزشتہ دو ہفتوں کے واقعات طبقاتی جدوجہد کے موجودہ مرحلے کے اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ایک طرف محنت کشوں کی بڑھتی ہوئی تحریک ہے طبقے کے لحاظ سے پیش رفت ہے جو گرتے ہوئے معیارِ زندگی کو ختم کرنے کے لیے جدوجہد میں داخل ہیں۔ دوسری طرف یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ یونین بیوروکریسی بائیڈن انتظامیہ کی ہدایت پر محنت کش طبقے کی جدوجہد کو روکنے اور دبانے کے لیے اپنی طاقت میں ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔

29 ستمبر 2023 کو مشی گن کے ڈیلٹا ٹاؤن شپ میں جنرل موٹرز اسمبلی پلانٹ کے قریب آٹو ورکرز نے پکیٹ کے نشانات لگائے ہیں۔ [AP Photo/Paul Sancya]

جمعہ کو یونائیٹڈ آٹو ورکرز کے صدر شان فین کی انتظامیہ کی طرف سے مزدوروں پر زبردستی کی گئی دھوکہ دہی کے زریعے ' جزوی ہڑتالوں' کے تین ہفتوں کا ایک سلسلہ کا اعلان کیا ہے جنہوں نے وائٹ ہاؤس کے ساتھ قریبی مشاورت سے یہ منصوبہ تیار کیا۔ یہ جزوی اور جعلی ہڑتالیں بیوروکریسی کی طرف سے ڈیزائن کی گئی ہیں تاکہ کارپوریشنز کے منافع پر زیادہ سے زیادہ اثر کو محدود کیا جا سکے اور فورڈ، جنرل موٹرز اور سٹیلنٹِس میں یو اے ڈبلیو ممبران کی اکثریت کو پیدواری عمل جاری رکھنے کے لیے استمعال کیا جائے۔

کمپنیوں کی بیلنس شیٹ پر اسکا اثر انتہائی محدود رہا ہے۔ پیر کو جے پی مورگن کی ایک رپورٹ کے مطابق ہڑتال سے بالترتیب صرف فورڈ کو 145 ملین ڈالر اور جنرل موٹرز کو 191 ملین ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ جبکہ 2022 میں فورڈ نے 158 بلین ڈالر کی آمدنی ریکارڈ کی یعنی ہڑتال کی وجہ سے اب تک فروخت میں 0.1 فیصد سے بھی کم کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کے مقابلے میں 2019 میں 40 روزہ قومی جی ایم ہڑتال جس میں اُس نے خود کو الگ تھلگ رکھا اور بالآخر یو اے ڈبلیو بیوروکریسی کی دھوکہ دھی کے ذریعے کمپنی کو تقریباً 4 بلین ڈالر لاگت آئی۔

جہاں تک صرف دو جی ایم اسمبلی پلانٹس اور کمپنیوں کے پرزہ جات کی تقسیم کے مراکز کے خلاف یو اے ڈبلیو کی حالیہ ہڑتالوں کا تعلق ہے سی این بی سی نے جمعرات کو بیان کیا ہے کہ جی ایم کی بنائی گی فہرست کے مطابق ان کا 'براہ راست کوئی اثر نہیں' ہوا ہے، کمپنی کی تیسری سہ ماہی کی فروخت میں اصل میں اضافہ ہوا ہے۔ جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 21.4 فیصد ہے۔

یو اے ڈبلیو کی ہڑتالوں کو صرف مٹھی بھر بگ تھری پیدواری پلانٹس تک محدود کرنا ایک سازش ہے اور یہ فیصلہ آٹو انڈسٹری میں مکمل ہڑتال کی کارروائی کے لیے مزدوروں میں پھیلے ہوئے جذبات کی نفی کرتے ہوئے کیا گیا ہے۔ انکا یہ حربہ کافی وقت گزر نے کہ بعد واضع ہو گیا ہے کہ یو اے ڈبلیو کا یہ اقدام کارپوریشنز کی شرائط کو نافذ کرنے کی تیاری میں کیا گیا ہے جو ہر معاملے میں مزدوروں کو تقسیم کرنے اور ان کو بے اختیار کرنے کی ایک دانستہ پالیسی ہے۔

اتوار کو یو اے ڈبلیو نے واضح طور پر پہلے سے طے شدہ فیصلے میں، پچھلے معاہدے کی میعاد ختم ہونے سے 10 منٹ قبل میک ٹرکس کے ساتھ ایک عارضی معاہدے کا اعلان کیا۔ یو اے ڈبلیو کی طرف سے میک میں 'آخری لمحے' کے معاہدے کے اعلان کا مقصد وہاں اور بگ تھری میں مزدوروں کی بیک وقت ہڑتال کو روکنا تھا اس خوف سے کہ اس سے صنعت بھر میں واک آؤٹ کی اپیلوں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔

رینک اور فائل کے لیے اپنی توہین کا اظہار کرتے ہوئے یو اے ڈبلیو حکام نے میک ورکرز سے کہا ہے کہ وہ اس اتوار کو توثیق کے ووٹوں تک معاہدے کے بارے میں معلومات جاری نہیں کریں گے جبکہ یونین صرف منتخب معاہدہ کی 'جھلکیاں' پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اپنے اراکین کو آخری لمحات تک اندھیرے میں رکھنے کے اقدام نے مزدوروں میں فوری غصے کو بھڑکا دیا جنہوں نے بشمول سوشل میڈیا پر مکمل کنٹریکٹ جاری کرنے کے مطالبات پیش کیے اور پیشین گوئی کی کہ یہ ایک دھوکہ ہے جس میں کوئی شک باقی نہیں رہا ہے۔

یو اے ڈبلیو اپریٹس اور شان فین کی انتظامیہ کا طرز عمل اور طریقہ کار ہڑتالوں کو روکنا ہے 11ویں گھنٹے کے معاہدوں کا اعلان کرنا جبکہ مزدوروں کو اس کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہے اور اس بات کو یقینی بنانا کہ کوئی بھی واک آؤٹ انتہائی محدود اور بے ضَرر رہے یہ ایک عالمگیر عمل کا صرف ایک اظہار ہے۔ امریکہ میں ہر شعبے میں اور دیگر ممالک میں یونین کی بیروکریسی محنت کشوں کی جدوجہد کو دبانے اور متحد جدوجہد کو روکنے کے لیے اوور ٹائم کام کر رہے ہیں۔

  • 24 ستمبر کو رائٹرز گلڈ آف امریکہ نے اعلان کیا کہ وہ اسٹوڈیوز اور بڑے اسٹریمرز کے ساتھ ایک معاہدے تک پہنچنے کے بعد 11,000 اسکرین رائٹرز کی 146 روزہ ہڑتال کو یکطرفہ طور پر بند کر رہا ہے۔ ہڑتال کرنے والے مصنفین نے اس معاہدے پر اپنی حق رائے دھی بھی اب تک استمعال نہیں کی تھی۔
  • 24 ستمبر ہی کو یونیفور نے کینیڈا میں 5,600 فورڈ آٹو ورکرز کو کور کرنے والے ایک معاہدے کی توثیق کا اعلان کیا، جو ایک جعلی ووٹ کے زریعے کیا گیا جس پر یونین نے خود اپنے قوانین اور آئین کی خلاف ورزی کی۔
  • بدھ کے روز 77,000 قیصر پرمیننٹ ہیلتھ کیئر ورکرز کم اجرت اور انتہائی کم اسٹاف کے خلاف ہڑتال کرنے والے ہیں اس واک آؤٹ کو پہلے ہی سے ہیلتھ کیئر کی یونینوں کی طرف سے صرف تین دن تک محدود کیا جا چکا ہے۔

بڑھتے ہوئے محاذ آرائی والے محنت کش طبقے کا سامنا کرتے ہوئے بائیڈن جو تاریخ میں خود ساختہ طور پر اپنے کو 'سب سے زیادہ یونین کے حامی صدر' کہتے ہیں نے اپنی انتظامیہ کو شروع سے ہی کارپوریٹسٹ دوست حکمت عملی کے لیے کارپوریشنوں، یونین بیوروکریسیوں اور ریاست کو اس سے بھی زیادہ حد تک آپس میں مربوط کیا ہے۔

یونینوں اور ریاست کا کارپوریٹ انضمام بائیڈن اور یو اے ڈبلیو صدر کے درمیان تعلقات کی علامت ہے۔ یو اے ڈبلیو کی قیادت وائٹ ہاؤس کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے فین کے دعووں کے باوجود کہ بائیڈن معاہدے کے عمل میں 'مداخلت نہیں کر رہا'۔

دریں اثنا کارپوریشنز کے لیے تاحیات سیاسی ایجنٹ بائیڈن شان فین کو ایک 'مہربان جذبہ' کے طور پر دیکھتے ہیں واشنگٹن پوسٹ نے سموار کو رپورٹ کیا ہے کہ درحقیقت دونوں امریکی صدور آج آٹو ورکرز کو درپیش تباہ کن صورتحال کے مرکزی ذمہ دار ہیں۔ اوبامہ بائیڈن انتظامیہ نے 2009 میں کارکنوں کی پشت پر آٹو انڈسٹری کی تنظیم نو کی جنہوں نے نئے ملازمین کی اجرت آدھی کی اور زندگی کی لاگت کی ایڈجسمینٹ (COLA) اور پنشن کو ختم کیا اور پلانٹس بند کر کے ہزاروں ملازمتوں کو تباہ کیآ۔ یو اے ڈبلیو کے ساتھ کیے گئے ان سودوں میں جنہیں شان فین کی مکمل حمایت حاصل تھی جو اُس وقت یو اے ڈبلیو- کیرسلر نیشنل بارگیننگ ٹیم کے ممبر کے طور پر تھے۔

یو اے ڈبلیو بیوروکریسی اور ڈیموکریٹک پارٹی کو 'بائیں' بازو کے طور پر پیش کرنا جو رسوئی کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں امریکہ کے جعلی بائیں بازو کے ڈیموکریٹک سوشلسٹوں کو ایک بے مثال حد تک بلند مقام تک پہنچا دیا گیا ہے۔ ڈی ایس اے کے اراکین اب یو اے ڈبلیو اپریٹس میں اعلیٰ عہدوں پر فرائض ہیں جو اب بیوروکریسی اور وائٹ ہاؤس دونوں کے لیے حکمت عملی اور ترجمان کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں، ان کی خدمات کے عوض انہیں یکساں چھ اعداد کی آمدنی اور بڑی مراعات شامل ہیں۔

حکمران طبقے کا یونین بیوروکریسیوں اور سماجی جدوجہد پر قابو پانے کے لیے جعلی بائیں بازو پر زیادہ سے زیادہ انحصار ایک دوسرے سے جڑے بحرانوں خاص طور پر روس کے خلاف جنگ اور طبقاتی جدوجہد کے پھوٹنے سے چل رہا ہے۔

بائیڈن تسلیم کرتا ہے کہ وہ دو محاذوں پر جنگ لڑ رہا ہے۔ واشنگٹن یوکرین میں روس کے خلاف اپنی جنگ کو تیزی سے بڑھا رہا ہے، یوکرین کی 'جوابی کارروائی' کی تباہ کن ناکامی کے بعد میڈیا اور سیاسی اسٹیبلشمنٹ میں امریکہ اور نیٹو کے لیے ' اپنی فوجوں کو میدان جنگ میں اترنے ' کے لیے تیزی سے سخت مطالبات سامنے آ رہے ہیں۔ چین کے خلاف جنگ کے لیے بھی منصوبے بہت آگے جا چکے ہیں جسے امریکی سامراج اپنا سب سے بڑا اقتصادی حریف سمجھتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ بائیڈن انتظامیہ اور دونوں سیاسی جماعتیں محنت کش طبقے کے خلاف ایک شعوری جنگ کر رہی ہیں جو اس کی باہر کی جنگی پالیسی کا نتیجہ ہے۔ امریکی حکمران طبقے کو روس کے خلاف جنگ اور چین کے خلاف فوجی محاز آرائی اور مجموعی طور پر امریکی قومی سلامتی کے سازوسامان پر ہونے والے اپنے بڑے اخراجات جو کے ایک ٹریلین ڈالر سالانہ سے زیادہ ہے کہیں سے تو پوری کرنی ہو گی اور وہ ان اخراجات کے لیے اجرتوں اور سماجی پروگراموں پر مسلسل حملوں کے ذریعے مزدوروں پر مسلط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ 

اس طرح محنت کشوں کی جدوجہد کو روکنا نہ صرف اس میں شامل کمپنیوں کے مخصوص منافع بخش مفادات کے لیے اہم ہے بلکہ محنت کش طبقے کی تحریک کو امریکی سامراج کی جنگی پالیسی کو کمزور کرنے سے روکنے کے لیے بھی ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یو اے ڈبلیو اور دیگر یونین بیوروکریسی طبقاتی جدوجہد کو دبانے پر پوری طرح مرکوز ہیں۔ اور پچھلے ہفتے بائیڈن کے پکیٹ لائنوں(مزدوروں کے دھرنے) میں موجودگی دوسری عالمی جنگ کے دوران جی ایم فیکٹریوں کو جنگی وقت کی پیداوار میں تبدیل کرنے کے لئے شان فین کے بدصورت اشارے کے پیچھے یہی ہے۔

شان فین اور یو اے ڈبلیو اپریٹس، یا ان بیروکریسی یونینز پر دباؤ ڈالنے کی کوئی بھی کوشش ناکام ثابت ہوگی اور تحریک تباہ ہو گی۔ جس پروگرام کی ضرورت ہے وہ میک ٹرکس کے کارکن ول لیمن نے گزشتہ سال یو اے ڈبلیو کے صدر کے لیے کھڑا تھا نے واضع کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ یو اے ڈبلیو بیوروکریسی کو مکمل طور پر ختم کرنا اور تمام اختیارات کو رینک اینڈ فائل میں منتقل کرنا ہو گا۔ اس لیے آٹو ورکرز رینک اینڈ فائل کمیٹیوں کے نیٹ ورک کو بڑھایا جانا چاہیے اور ابھی سے تیار ہونا چاہیے کہ وہ یو اے ڈبلیو اپریٹس کو ایک معاہدے کے ذریعے مزدوروں کو مجبور کرنے کی کوششوں کو مسترد کر دے جو کہ وہ لامحالہ ایسا کرنے کی کوشش کرے گا چاہے وہ جھوٹ یا ووٹ کی دھاندلیوں کے ذریعے ہو کیوں نہ ہو۔

لیکن آٹو ورکرز کو نہ صرف معاشی جدوجہد کا سامنا ہے بلکہ وہ جس لڑائی میں مصروف ہیں وہ بنیادی طور پر سیاسی ہے۔ محنت کش طبقے کو یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ وہ ایک ایسے سماجی و اقتصادی نظام سے لڑ رہے ہیں وہ سرمایہ داری ہے جو ان کے بنیادی مفادات کے مکمل اور ناقابل مصالحت مخالف ہے اور ان کی ہمیشہ سے بڑتی ہوئی غربت کا باعث ہے۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جسے معاشرے کی اکثریت کی ضروریات کے مطابق الٹ کر تبدیل کیا جانا چاہیے جو کے سوشلزم ہے۔

Loading