یہ انگریزی میں 30 جنوری 2023 کو شائع ہونے والے 'Israeli drones, warplanes strike Iran and Syria' .اس ارٹیکل کا اردو ترجمہ ہے
اسرائیلی فوج اور انٹیلی جنس یونٹوں نے ہفتے کے آخر میں شام میں ایران اور ایرانی افواج کے خلاف جارحیت کی متعدد کارروائیاں کیں۔ یہ حملے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی قیادت میں اسرائیل میں نئی قائم کی گئی انتہائی دائیں بازو کی حکومت کے تحت پہلی جارحانہ فوجی کارروائی تھی۔
یہ ڈرون حملہ ممکنہ طور پر اسرائیلی کارندوں کی طرف سے ایران کے اندر سے کیا گیا جو ہفتے کی رات وسطی ایرانی شہر اصفہان میں ایک ہتھیاروں کی تنصیب کو نشانہ بنایا۔ اس کے بعد اتوار کی رات ایران کے پاسداران انقلاب کے ٹرکوں کے قافلے کو فضائی حملوں سے ٹارگیٹ کیا گیا جب یہ عراق اور شام کی سرحد عبور کر کے شام کی طرف بڑھ رہے تھے۔
ان حملوں کے دائرہ کار، نقصانات اور جانی نقصان کے بارے میں قطعی معلومات حاصل کرنا مشکل تھا لیکن وال اسٹریٹ جرنل نے اصفہان میں ڈرون حملے کی اسرائیلی ذمہ داری کی تصدیق کرتے ہوئے ایک نامعلوم امریکی فوجی ذریعے کا حوالہ دیا۔
اصفہان میں ہونے والے نقصان کے بارے میں ایران اور اسرائیلی ذرائع سے متضاد دعوے سامنے آئے۔ ایرانی وزارت دفاع نے کہا کہ اس حملے سے معمولی نقصان پہنچا ہے لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا صرف یہ کہ 'مائیکرو ایریل وہیکلز (MAVs)' کو مار گرایا گیا۔
چھوٹے سائز کے ڈرونز کو مد نظر رکھتے ہوئے جن کو کواڈری کاپٹر کہا جاتا ہے اور ملک کے وسط میں اصفہان کا مقام قریبی سرحد سے سینکڑوں میل کے فاصلے پر ہے، فوجی حکام کا کہنا ہے کہ حملہ ممکنہ طور پر اسرائیلی کارندوں نے ایران کے اندر سے کیا تھا۔ جیسا کہ پہلے اسرائیلی ایجنٹوں نے ایران کے اندر درجنوں حملے کیے ہیں جن میں قتل، بم دھماکے اور تخریب کاری کی دیگر کارروائیاں شامل ہیں۔
نتنز میں ایران کی جوہری ایندھن کی افزودگی کی بنیادی سہولت صوبہ اصفہان میں واقع ہے جو شہر سے کافی دور ہے اور یہ گمان ہے کہ یہ اس تازہ ترین حملوں کا نشانہ نہیں تھا۔ یہاں ایک بڑا فضائی اڈہ، ایران اسپیس ریسرچ سنٹر کی سائٹ، اور بہت سی چھوٹی فوجی تنصیبات بھی ہیں، بشمول کم از کم ایک گولہ بارود کا گودام یا فیکٹری جو مبینہ طور پر پہلے ڈرون حملے کی زد میں آئی تھی۔
یہ حملے سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز کے اسرائیلی حکام کے ساتھ بات چیت کے لیے یروشلم کے دورے اور امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کی آمد کے موقع پر ایک ساتھ رونما ہوئے جو سموار سے سرکاری ملاقاتوں کا دو روزہ دورے پر ہیں۔
اور یہ حملے اب تک کی سب سے بڑی امریکی-اسرائیل مشترکہ فوجی مشقوں کے بعد ہوئے ہیں جو مشرقی بحیرہ روم اور اسرائیلی سرزمین پر منعقد کی گئی ہیں اور اس میں 7,500 سے زیادہ فوجی شامل ہیں۔ رپورٹ کردہ کارروائیوں میں ایسے نظاموں کا تجربہ کرنا تھا جو ایران کے خلاف ایک بڑی جنگ کے ابتدائی مراحل میں اہم ہوں گے، بشمول فضائی دفاعی نظام کو تباہ کرنے کے لیے پیشگی حملے اور جنگی طیاروں کی فضا میں دوبارہ ایندھن بھروانے کی مشقیں۔
یروشلم پوسٹ نے خوش گوار لہجے میں لکھا:
'ماہرین نے نوٹ کیا کہ امریکہ اور اسرائیل نے ایران جیسے اہداف پر حملہ کرنے والے اہداف کے ارد گرد فوجی مشقیں کرنے میں پورا ایک ہفتہ گزارا لہذا ان مشقوں کے فوراً بعد اس طرح کا حملہ کرنا ان کی سنجیدگی کا واضع پیغام ہو سکتا ہے۔ انہوں نے اندازہ لگایا کہ حملے سے قبل سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز کا دورہ اسرائیل اس بات کا ثبوت تھا کہ حملے کی تیاری کرنے والے سی آئی اے اور موساد کے سربراہوں کے درمیان ایک خصوصی آمنے سامنے ملاقات کی ضرورت تھی۔
واشنگٹن کے ساتھ فوجی حملوں کا رابطہ محض آپریشنل منصوبہ بندی سے بالاتر تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ ایران کے اندر ہدف کا انتخاب یوکرین میں نیٹو کے ساتھ پراکسی جنگ میں روس کو ایران کی فوجی مدد کے جواب میں کیا گیا تھا۔
روس یوکرین کی جنگ میں ایرانی ساختہ ڈرونز کا بہت زیادہ استعمال کر رہا ہے اور تہران کا موقف یہ ہے کہ یہ ہتھیار جنگ شروع ہونے سے پہلے دیرینہ فوجی تعاون کے حصے کے طور پر بھیجے گئے تھے۔
امریکہ اور نیٹو دونوں نے جنگ میں ایرانی شرکت کے بہت زیادہ عوامی دعوے کیے ہیں۔ اصفہان میں ڈرون حملے کے بعد امریکہ اور اسرائیل یوکرین کی لڑائی کو مشرق وسطیٰ تک پھیلا رہے ہیں۔
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے ایک اعلیٰ معاون نے ٹوئٹر پر واضح طور پر یہ پیغام دیا۔ 'ایران میں دھماکہ خیز رات،' میخائیلو پوڈولیاک نے طنز کرتے ہوئے لکھا۔ ’’تمہیں خبردار کیا جاتا ہے۔‘‘
قاہرہ میں مشرق وسطیٰ کے دورے میں اپنے پہلے اسٹاپ پر جہاں اس نے مصری فوجی آمر عبدالفتاح السیسی سے ملاقات کی بلنکن نے امریکہ کے غنڈہ گردی کے موقف کو دہرایا کہ 'ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کے لیے تمام آپشن میز پر موجود ہیں۔'
شام میں فضائی حملے میں جس کی اسرائیلی یا امریکی فوجی ذرائع سے تصدیق نہیں کی گئی ہے- اس طرح کی غیر قانونی جنگی کارروائیوں میں جیسا کہ معمول ہے- لڑاکا بمباروں نے شام - عراق کی سرحد میں القائم کراسنگ پر 25 ایرانی ٹرکوں کے ایک گروپ پر حملہ کیا۔
سعودی حمایت یافتہ العربیہ نیٹ ورک نے کہا کہ ٹرک سرحد پار کر گئے تھے اور پھر انہیں نشانہ بنایا گیا۔ شامی میڈیا کے مطابق حملہ کرنے والوں میں چھ ریفریجریٹڈ ٹرک بھی شامل ہیں۔ شامی ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ فضائی حملوں میں ایرانیوں کے ایک اجلاس کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
اس پھیلتی ہوئی جنگ کی تفصیلات اور مضمرات مزید واضح ہو جائیں گے۔ لیکن اسرائیلی جارحیت کے پیچھے نہ صرف امریکی سامراج کے سٹریٹیجک مفادات ہیں بلکہ صہیونی ریاست کے اندر گہرا ہوتا ہوا اندرونی بحران ہے۔
جمعرات کو جنین میں خون کی ہولی کھیلی گی جب ایک چھاپہ مار پارٹی پر اسرائیلی فوجیوں نے 10 فلسطینیوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا، جمعے کی رات دہشت گردی کی جوابی کارروائی کا آغاز کیا جب ایک فلسطینی نے یروشلم کے باہر کنیسہ پر حملہ کر کے سات اسرائیلیوں کو ہلاک کر دیا۔ اس کے بعد یروشلم کے ارد گرد تشدد کی مزید کارروائیاں ہوئیں جن میں اسرائیلی اور فلسطینی دونوں ہلاک اور زخمی ہوئے۔
نیتن یاہو کی نئی حکومت نے اسرائیل کی تاریخ میں رجعتی توسیع پسندانہ اہداف کے سب سے بڑے دعوے کے ساتھ اقتدار سنبھالا ہے۔ اس کے اصولوں کا بیان اسرائیل اور مقبوضہ مغربی کنارے پر یہودیوں کے 'خصوصی حق' پر زور دینا ہے اور یہ اتحاد مغربی کنارے کو باضابطہ طور پر الحاق کرنے کے معاہدے کی بنیاد پر قائم کیا گیا تھا جب نیتن یاہو ایسا کرنے کا انتخاب کرتے ہیں اور اس کو قانونی حیثیت دینے کے لیے تو وہاں درجنوں غیر مجاز بستیاں ہیں جو موجودہ اسرائیلی قانون کے تحت بھی غیر قانونی ہیں۔
اسرائیلی حکومت پہلے ہی حالیہ تاریخ میں حزب اختلاف کے سب سے بڑے مظاہرے دیکھ چکی ہے۔ سپریم کورٹ کو غیر جانبدار کرنے اور مؤثر طریقے سے مکمل اقتدار سنبھالنے کی دھمکی کے خلاف یہودیوں اور عربوں دونوں نے احتجاج میں حصہ لیا۔ اس کے بعد جینین کا قتل عام ہوا، جس کے بعد مقبوضہ مغربی کنارے میں خانہ جنگی کے قریب حالات کو بھڑکا دیا۔